جبار مرزا

پروفیسر پری شان خٹک کا شمار پاکستان کے ان ماہر تعلیم اور بزرگ قلمکاروں میں ہوتا ہے قوم جن پر بلاشبہ فخر کرتی ہے۔ میرا ان سے عقیدت کا رشتہ تیسں برسوں پر محیط ہے ۔ان کی شخصیت کی بڑھائی اور شفقت کا یہ عالم ہے کہ ٹیلیفون پر مجھے کہ رہے تھے کہ میں خود کو جبارمرزا کہتا ہوں ۔ آپ اپنے آپ کو پری شان خٹک سمجھا کریں ۔

میرے اور آپ میں کوئی فرق نہیں ۔ نہ کوئی بعد ہے۔ ہم ایک ہیں‘‘محبت اور احترام کا یہ وہی رشتہ ہے جسے عام سی معنوں میں مفاہمت کاعمل کہہ سکتے ہیں ۔ پری شان خٹک کو بھی میں نے پریشان نہیں دیکھا اور نہ ہی وہ بھی کسی دوست کو پریشانی میں دیکھ سکتے ہیں ۔ستمبر 1986 ء میں جب وہ اکیڈی آف ٹیفرز کے چیئرمین بنے تو ان دنوں سید ضمیرجعفری بےروز گاری کے دلدل میں سفید پوشی کی چادر اوڑھے گھر پر پڑے تھے ۔خٹک صاحب نے اکیڈمی کا چارج سنجالتے ہی پہلا فون سید ضمیر جعفری کو کیا  گاڑی بھجوائی آفس بلوا کر اکیڈی کے اپنے اطلاعاقی نیٹ ورک کی ضرورت پر مشاورت کی واپسی پرسہ ماہی ادبیات کی چیف ایڈیٹری کا پروانہ دے بھیجا۔

durood shareef world bank

پھر جب بے نظیر بھٹو پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئیں تو جون 1989ء میں معاہدے کی مقررہ تاریخ سے چند ماہ قبل ہی انہوں نے پری شان خٹک کو ہٹا کر احمد فراز کو اکیڈمی ادبیات کا چیئرمین بنایا تو احمد فراز نے سیدضمیرجعفری کو بھی ایک خط لکھا کہ چار ماہ بعد آپ خود کو فارغ سمجھیں ۔جس کے جواب میں سید صاحب نے احمد فراز کولکھا کہ مجھے پری شان خٹک کے ساتھ ہی فارخ سمجھۓ‘‘۔

سید ضمیر جعفری کے بارے میں پری شان خٹک نے مختصر مگر جامع تبصرہ کرتے ہوۓ کہا تھا کہ وہ ایک ایسا اللہ کاولی تھا جس کے منہ سے بھی کسی کی مخالفت نہیں سنی’’ آغا شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ سید ضمیر جعفری اگر شاعر نہ ہوتا تو فقیر ہوتا‘‘ میں چونکہ گزشتہ تین سال سے اپنی نئی کتاب’’ مزاح نگاروں کا کمانڈ رانچیف‘‘ پر کام کررہا ہوں اور اس سلسلے میں ملک کے دیگر شہروں کے علاوہ سید صاحب کے آبائی گاؤں چک عبدالخالق بھی کئی بار جانا ہوا سید ضمیر جعفری نے اپنی تحریروں میں چک عبدالخالق کے پیر فضل احمد شاہ کی بیری کا بہت تذکرہ کیا ہے ۔ جس پر جعفری صاحب لڑ کپن میں اپنی ہم عمر لڑکیوں کو پینگ‘‘ ڈال کے دیا کرتے تھے ۔

بابا فضل احمد کا اصل نام پیر فضل احمد شاہ تھا وہ اپنے دور کے ولی بزرگ ہوگزرے ہیں ۔ آج کل بابا فضل احمد کا پوتا سید حسنات شاہ کمال جو چیک عبدالخالق کے قریبی قصبے لدھڑ متارا کے گورنمنٹ اسکول کے پرنسپل ہیں وہ روحانیت میں کمال کو پہنچے ہوئے ہیں ۔ دن میں اسکول اور شام سے رات گئے اپنی تعمیر کردہ مسجد میں ملتے ہیں ۔ ملک اور بیرون ملک اہل ایمان اور صاحب بصیرت سے رابطے میں رہتے ہیں درودشریف پڑھتے ہیں ، دوسروں کو بھی اس راہ پر ڈالتے ہیں۔ ہرکسی کو ایک تسبیح تحفے میں بھیج کراسے اپنے درودشریف ادارے کا ممبر بناتے ہیں باقاعدہ اسے کاؤنٹ نمبر جاری کیا جا تا ہے پھر روزانہ کی بنیاد پر اس نمبر سے درودشریف وصول کیا جا تا ہے ۔

اس حوالے سے با قاعدہ رجسٹر رکھے ہوۓ ہیں جن میں اندراج ہوتا ہے ۔ کہ آج کتنا درود شریف وصول ہوا اور کتنا کسی کو دیا کسی کی مغفرت مقصود ہو، گھر کی خیر و برکت ،اقدرتی آفات سے محفوظ اور چوری چکاری سے بچاؤ الغرض ہر مرض کی دوا درودشریف ہی ہے ۔ میں اکثر اپنے والدین کی برسی پر حسنات شاہ کمال صاحب سے درودشریف لیتار ہتا ہوں کم سے کم دو اور زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ درودشریف بغیر کسی پیشگی نوٹس کے وصول کرنے کا اتحقاق رکھتا ہوں ۔ میں ان کا واحد اکاؤنٹ ہولڈر ہوں جو ڈیپازٹ کراۓ بغیر وصول کرتارہتا ہوں ۔ یوں تو میری ساری عمر او ڈی پر گزرگئی مگر حسنات شاہ کمال امداد کے طور پر مجھے درودشریف عطیہ کرتے رہتے ہیں ۔ 18 کتوبر 2005 کے زلز لے میں شہید ہونے والوں کو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ فی شہید درودشریف حسنات شاہ نے ملک کیا تھا۔

چک عبدالخالق کی مذکور و مسجد میں صبح دس بجے سے ظہر تک ہر پندرہ دن بعد مہینے کے دوسرے اتوار کو ایک محفل منعقد ہوتی ہیں جس میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں درودشریف پڑھا جا تا ہے ۔ گردوپیش کی آبادیوں کے علاوہ اسکولوں کے بچوں کی بڑی تعداد ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے درودشریف پڑھتے اور جمع کراتے رہتے ہیں۔ فروری 2009 کی بیلنس شیٹ کے مطابق 27 کروڑ سے بھی زیادہ درودشریف حسنات شاہ کمال کے پاس جمع تھا۔ اگر اس درودشریف تظیم کا کوئی ممبر عمرے پر گیا ہوا ہواور مدینہ پاک میں موجود ہو تو اس پر درودشریف گننے اور اکاؤنٹ میں جمع کروانے کی پابندی نہیں ہوتی ۔وہاں اسے بے حساب پڑھنے کی چوٹ حاصل ہوتی ہے ۔

چک عبدالخالق کے اس دورافتادہ گاؤں میں سید حسنات احمد کمال درود شریف کا ایک ایسا بینک قائم کئے ہوۓ ہیں جس سے ہر چھوٹا بڑا،امیر غریب شاہ گدا استفادہ کرسکتا ہے وہاں مذہب و مسلک کی پابندی بھی نہیں ہے ۔جس کو جتنا درودشریف ضرورت ہو حاصل کر سکتا ہے ۔ لوگوں نے بڑی با قاعد گی سے درودشریف بینک سے لین دین جاری رکھا ہوا ہے ۔ حسنات شاہ نے بتایا کہ اس بینکاری میں نقصان کی گنجائش ہی نہیں ہے ۔صرف منافع ہی منافع ہے ۔ حسنات احمد کمال گزشتہ کافی عرصے سے مجھے چکوال کےنزدیک موضع پنوال چلنے کو کہتے رہتے تھے جہاں ان کے روحانی مرشد پروفیسر باغ حسین کمال کا آستانہ ہے ۔

یہ22 مارچ 2009 ءکو جب میں وہاں پہنچا تو پوری کی پوری بستی درود شریف پڑھنے میں مصروف تھی ۔اندرون پاکستان، سعودی عرب ، افریقہ، برطانیہ، یورپ اور امریکہ سے بھی لوگ آۓ ہوۓ تھے ۔ ڈنمارک جہاں آۓ دن گستاخانہ خاکے شائع ہوتے رہتے ہیں وہاں سے آۓ ہوۓ محمد منیر نے مجھے بتایا کہ وہ کوپن ہیگن میں گستاخوں کے خلاف آواز بھی اٹھاتے رہتے ہیں اور بڑی با قاعد گی سے درود شریف بھی بذریعہ ای میل یا ٹیلیفون پنوال بجواتے رہتے ہیں ۔ پروفیسر باغ حسین کمال کے بڑے فرزند صاحبزادہ قاضی مراد کمال جو آج کل سجادہ نشینی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ان سے ملاقات کیلئے جانے والا ہرشخص، ہزاروں ،لاکھوں اور کروڑوں درود شریف اپنے ہمراہ لے کر آیا ہوا تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد صاحبزادہ صاحب نے ناصحانہ انداز میں سالانہ گوشوارہ پیش کرتے ہوۓ کہا کہ ہماری بڑی کوشش تھی کہ اس سال ایک کھرب درود شریف اکٹھا ہو سکے مگر پاکستان اور دنیا مجر سے جمع ہونے والا درودشریف صرف اور صرف پچانوے ارب ہی ہوسکا ہے ۔

سید حسنات احمد کمال چک عبدالخالق کے آستانہ عالیہ سید میراں شاہ صاحب کے سجادہ نشین ہیں ، چک عبدالخالق میں درودشریف کا بینک قائم کرکے بین الاقوامی شہرت پائی ۔ممتاز روحانی شخصیت پروفیسر باغ حسین کمال نے سید حسنات احمد کمال کی ولادت سے دوسال آ پیشتر ہی آپ کی والدہ ماجدہ صاحبہ مسماۃ سیدہ نجم النساء کوخواب میں بیٹے کی ولادت کی خوشخبری دیتے ہوۓ کہا تھا کہ اس کا نام سید حسنات احمد رکھنا ، یہ 1966 کا واقعہ ہے ، پھر جب 24 مارچ 1986 ءکو جہلم میں دارالفیضان میں حضرت باغ حسین کمال نے سیدحسنا ت احمد کمال کوا پنی بیعت میں لیا تو انہوں نے فرمایا ظاہری بیت تو آج ہوئی لیکن روحانی طور سے ہم نے آپ کو 1966 ء میں بیعت کر لیا تھا ، آپ کی والدہ ماجدہ کے خواب میں آ کر بیٹے کی خوشخبری ہم نے ہی دی تھی ۔

durood shareef world bank

میری والدہ صاحبہ نے بھی اس موقع پر اس بات کا اعتراف کرتے ہوۓ بے اختیار اللہ اکبر کہا کہ واقعی یہ وہی شخصیت ہیں جو میرے خواب میں تھے سید حسنات احمد کمال چک عبدالخالق کی ایک ایسی روحانی علمی اور تاریخی شخصیت ہیں جنہیں کئی بار نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ کی خواب میں زیارت ہوئی ، اس حوالے سے کے آپ کا کہنا ہے کہ’’ مجھے بہت بیتابی ہوا کرتی تھی ، بڑی خواہش تھی کہ میں اپنے آقا حضرت اس ﷺ کی زیارت کروں پر کیسے کرتا خیر ایک دن اچانک میں نے دارالفیضان میں حضرت باغ حسین کمال صاحب سے گزارش کی کہ یا مرشد آپ روزانہ سوا دولاکھ درودشریف پڑھتے ہیں ۔

روحانیت میں آپ ممتاز روحانی طور سے کئی بار حضرت محمدﷺ کی زیارت کرچکے ہیں میری بھی سفارش فرما دیجئے وہ آقاۓ کائنات مجھے اپنے جلو پر نور سے مستفید فرمادیں باغ حسین کمال صاحب نے میری درخواست پر رب تعالی کے حضور ہاتھ بلند کئے گڑگڑا کر دعا کی رات کافی گزر جانے پر میں وہیں دارالفیضان میں ہی رک گیا دیکھتا کیا ہوں کہ تہجد کے قریب محسن انسانیت ﷺ تشریف لاۓ اور مجھے اپنی زیارت کراتے ہوۓ باغ حسین کمال صاحب سے فرمایا کہ ہم نے آپ کی سفارش قبول کی حسنات احمد کمال کی خواہش پوری ہوگئی ۔سید حسنات احمد کمال نے کہا کہ وہ رسول ﷺ کے گھرانے کے فرد ہیں ، آل رسول ﷺ ہیں درود شریف سے تمام عبادتوں میں افضل قرار دیا گیا ۔

رب تعالی نے مجھے اس کے پڑھنے اور دنیا بھر سے جمع کرنے کی سعادت نصیب کی مرشد مرا کامل ہے. ایسے میں اللہ تبارک تعالی نے میری درخواست میری خواہش میری آرزوں کی تعمیل زیارت رسول ﷺ کا انعام دے کر مجھے اس کارگزاری کے بعد جمع شدہ درودشریف میں سے کچھ پاکستان کی سلامتی، بقا، دفاع اور اس کی خوشحالی کی خاطراللہ کے حضور پیش کردیا گیا کچھ حاضرمحفل کے لئے صدقہ کردیا اور کچھ حضرت محمد ﷺ کی خدمت اقدس میں بھیجوا دیا گیا۔ واپسی پر بعض لوگ انفرادی اور کچھ اجتماعی طور سے آئندہ کے لئے زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کا ارادہ اور جمع کرانے کا وعدہ کرتے ہوۓ رخصت ہورہے تھے۔ میں کافی دیر تک اس دارالحسنات میں ہزاروں لوگوں کے چہروں پرتبسم آفرینیاں ،شادکامیاں اور نور کی کرنیں اترتی دیکھتا رہا جو پنوال جیسی غیر معروف بستی میں درود شریف کا ورلڈ بینک قائم کئے ہوئے ہیں ۔

 

durood shareef ka world bank