حضرت عبد اللہ بن عمر حضور ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ بیشک آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہر چیز کو صاف کرنے کے لیے کوئی دوسری چیز ہوتی ہے اور دلوں کو صاف کرنے کی چیزاللہ کا ذکر ہے ۔ ذکر الہی سے بڑھ کر اللہ کے عذاب سے نجات دلانے والی کوئی چیز نہیں ۔صحابہ نے عرض کیا ، کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ فرمایا”نہیں خواہ لڑتے لڑتےمجاہد کی تلوار کے ٹکڑے بھی ہو جائیں”۔

ذکر الہی کے باب میں ارشاد باری تعالی ہے۔

:واذكر اسم ربك بكرة وأصيلاً
(سورة اللهر، 76 – 25)
“صبح و شام اپنے رب کے نام کا ذکر کرو”

الا بذكر الله تطمئن القلوب
(سورة الرعد، 13 – 28)
“سنو! دلوں کا سکون تو اللہ کے ذکر میں ہے۔”

 فإذا قـضـيـم الـصـلـولـة فـاذكرو الله قياماً وقعودا وعلى جنوبكم
(سورة النساء ، 4 – 103)
“پھر جب تم نماز پڑھ چکوتو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اللہ کا ذکر کرو”

يـآيهـالـذيـن امنـو ذكرو الله ذكرا كثيراً لا وسبحوه بكرة وأصيلاً
(سورة الاحزاب، 33 – 42 – 41 )
ًًًًًاے ایمان والو! اللہ کا ذکر بہت کثرت سے کرو۔ (خصوصاََ ) صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو

واذكرآربک فی تفسك تضرعا وخيفة ودون الجهرمن القول با لغدر والأصال ولا تكن من الغفلين۔(سورة الاعراف، 7 – 205)
اور اپنے رب کا ذکر عاجزی اور خوف سے دل میں اور دیمی آواز سےصبح و شام کیا کرواور غافلین میں سے نہ ہو ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے صبح کی نماز کے بعد سے سورج نکلنے تک اللہ کا ذکر کرنے والے لوگوں کے ساتھ بیٹھ۔نا اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں حضرت اسمعیل کی نسل کے چار غلاموں کو آزاد کردوں۔

Zikr Ki Ahmiyat

اور میں ان لوگوں کے ساتھ بیٹھوں جو عصر کی نماز کے بعد سے سورج ڈوبنے تک اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ یہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں چارغلام آزاد کروں ۔ سبحان اللہ ! اللہ کا ذکر کرنے کی کیا شان ہے کہ محبوب رب العالمین ﷺ ان کے ساتھ بیٹھنا پسند فرماتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور پھر یہ ذرہ نوازی صرف آپ ہی کی طرف سے نہیں بلکہ خودبرب العالمین اپنے حبیب ﷺ کو ارشاد فرماتے ہیں۔

واضير نفسك مع الذين يدعون ربهم بالقدوة والعشي
(سورة الكهف، 18 – 28 )
اے نبی (ﷺ ) آپ ان لوگوں کے ساتھ اپنے آپ کوروکے رکھیے(بیٹھے) جواپنے رب کو صبح وشام پکارتے ہیں ۔

بعض لوگ لاعلمی میں مجرد اسم ذات۔۔اللہ کے ذکر کا ثبوت مانگتے ہیں ۔ان کے نزدیک اور ادوتسبیحات ہی سے ذکر کی شرط پوری ہو جاتی ہے اور اسم ذات کاذکر فالتو یا غیر ضروری خیال کرتے ہیں ۔۔ ۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ساری کائنات کی روح اللہ کا نام ہے  ۔حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ عـن أنـس رضـى الـلـه عـنـه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:لا تقوم الساعة على أحد يقول الله الله۔
(رواه مسلم)

:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
قیامت اس وقت تک نہیں آۓ گی جب تک دنیا میں ایک بھی اللہ اللہ کرنے والا موجودنہ ہوگا ۔‘‘۔۔۔ اس پر دال ہے ۔ ۔ ۔ مزید برآں نماز کا آغاز ﷲاکبراورانجام السلام علیکم ورحمۃ اللہ پر ہوتا ہے یعنی اللہ سے شروع ہوئی اور اللہ پر ہی ختم ہوئی ۔علاوہ ازیں اللہ تعالی کے فرمان کہ”

واذكر اسم ربك وتبتل إليه تبيلا.
(سورة المزمل، 73 – 8 )
“ساری دنیا سے کٹ کر اپنے رب کے نام کا ذکر کرو ۔”

میں غور کیا جاۓ تو سوال کا جواب مل جا تا ہے کہ آخر رب کا نام کیا ہے؟ اللہ ہی رب کا نام ہے ۔۔۔ گویا اس آیت کریمہ میں اسم ذات اللہ کے ذکر کا ہی حکم صادرفرمایا گیا ہے۔ مزید ارشاد باری تعالی ہے

وإذا ذكر الله وحده اسمارت قلوب الذين لا يؤمنون بالأجرة.
جب خالص اللہ کا نام لیا جائے تو ان کے دل رک جاتے ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے ۔

(سورة الزمر، 39 –45 ) 

یہ آیت کریمہ گویا اللہ کے ذکر کے مخالفین کے لیے ایک وعید کا درجہ بھی رکھتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر ایک آدمی کی جھولی میں درہم ہوں اور وہ ان کو تقسیم کررہا ہو اور دوسرا آدمی برابر اللہ کا ذکر کر رہاہوتو اللہ کا ذکر کرنے والا اس (درہم تقسیم کر نے والے) سے افضل واعلی ہوگا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کی جواپنے پروردگار کا ذکر کرتا ہے اور اس شخص کی جواپنے پروردگار کا ذکرنہیں کرbتا’زندہ‘اور ’مردہ‘ کی مثال ہے۔ ایک

” حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم بہشت کے باغوں سے گزرا کرو تو سیر ہو کر چرلیا کرو۔

صحابہ نے عرض کیا ، بہشت کے باغات ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ذکر کے حلقے ( مجلسیں )آج تمام محشر کو معلوم ہو جاۓ گا کہ عزت واحترام کے لائق کون ہیں تو رسول اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ !یہ عزت واحترام کے لائق کون ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ مسجد وں میں ذکر کی مجلسیں منعقد کرنے والے(ذاکرین ) ہیں۔

Zikr Ki Ahmiyat

ابی سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اتنی کثرت سے اللہ کا ذکر کیا کرو کہ لوگ تم کودیوانہ کہنے لگیں “۔

گویا غایت عبادت یہ ہے کہ انسان کا دل کسی لمحہ بھی اللہ تعالی کی یاد سے غافل نہ ہونے پاۓ ۔ ۔ ۔ اور اس یادالہی کو دائی طور پر دل میں جاگزین کرنے کے لیے ہی صوفیاء کرام قلب اور سینے میں چند دوسرے مقامات جنہیں تصوف کی اصطلاح میں لطائف سے تعبیر کیا جا تا ہے پرتصور جما کر اسم ذات’اللہ کی ضربات و اشغال اختیار کر تے اور سالکین کے قلوب اور مذکور و مقامات پرانی روحانی توجہ القاء کرتے ہیں۔توجہ اور تصرف کی وہ مثال قابل غور ہے کہ جب خضور ﷺ غار حرامیں تھے تو حضرت جبرائیل تشریف لائے اور تین بارفر مایا ’’ اقراء دو دفعہ حضور ﷺ نے جواب دیا’’ ما أنا بقاری ‘‘مگر تیسری بار حضرت جبرائیل نے سینہ سے لگا کر چھوڑا تو آپ ﷺ نے پڑھنا شروع کیا ۔۔۔ بخاری کی اس حدیث شریف کی شرح میں عارف کامل محدث اجل عبد اللہ ابي بن حمزہ نے’’ بهجة النفوس‘‘ میں فرمایا ہے۔

’’ اس حدیث سے ثابت ہا کہ دبانے والے کا اتصال اس کے جسم سے ہواجسے بھینچا گیا جو حصول فیض کا ایک طریقہ ہے،تو اس جسم کے اتصال سے باطن میں ایک قوت نورانیہ پیدا ہو جاتی ہے اور اس قوت سے دوسرا شخص اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہو جا تا ہے چنانچہ جب جسم جبرائیل حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس سے متصل ہوا تو اس میں وہ کیفیت نورانیہ پیدا کردی جس کا ہم نے ذکر کیا ہے ۔ مزید یہ کہ فرشتہ کی آواز سنی جو اس سے پہلے نہ سنی تھیں اور اہل میراث تبعین سنت محقین صوفیہ نے یہی طریقہ حاصل کیا ہے ۔“

حیات انسانی جسم و روح کے اتصال سے عبارت ہے ۔ جس طرح ظاہری جسم کے چہرے کے حصہ میں مختلف حواس کے لیے مختلف اعضاء کان ، آنکھ، ناک ، زبان اورقوت امسہ ہیں ۔ ۔ ۔ اسی طرح روح کے حواس کو لطائف قلبی ، روتی ، سری بخفی اور انھی سے موسوم کیا جا تا ہے ۔ ان کامحل سینہ ہے ۔ یوں سمجھ لیجے کہ سینے میں پانچ شیشے ہیں جو ہماری غفلت اور گناہ کے نتیجہ میں زنگ آلود ہو جاتے ہیں ۔ ان الطائف کو منور کر نے کی واحد دوااللہ کا ذکر ہے۔

لطائف کے بارے میں حضرت شاہ ولی الله ’’الـقـول الـجـميل ‘ صفحہ نمبر 99 میں میر صاحب کے قول کا حوالہ دیتے ہوۓ رقم طراز ہیں جانا چاہیے کہ اللہ تعالی نے انسان کے اندر چھ لطائف پیدا کیے ہیں اپنی ذات میں حقائق کے اعتبار سے علیحدہ علیحد ہ ہیں ۔ نیز میں نے اپنے والد ماجد سے سنا کہ بعض لطیفے بعض کے اندر ہیں اور اس کے متعلق اس حدیث سے استد لال فرماتے ہیں جوصوفیوں میں مشہور ہے کہ:

إن فـي جـسـد ادم مـضـغـة وفـى الـمضغة فؤاد وفى الفؤاد قلب وفـى الـقلب روح وفي الروح سر وفى السّر خفى وفي الخفي أخفى وفى الاخفى نفس

شمس العارفين  صفحه نمبر 98 ، حضرت سلطان باهو

ضياء القلوب “صفحه نمبر 17 ، حضرت امداد الله مهاجر مکی،

انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے اور لوتھڑے میں فؤاد،فؤاد میں قلب، قلب میں روح ،روح میں سر ،سر میں خفی ،خفی میں اخفی ہے اور اخفی میں نفس ہے

خلاصہ یہ کہ حضرت مجدد صاحب کا مقصد یہ ہے کہ ان لطیفوں میں سے ہرایک کو بدن کے بعض اعضاء سے ایک ربط تعلق حاصل ہے ۔ لہذا قلب کا تعلق بائیں پستان کے نیچے دوانگلی پر ہے ۔ اور روح کا ارتباط دل کے مقابلے میں دائیں پستان کے نیچے دو انگلی پر سری بائیں پتان کے اوپر جفی دائیں پستان کے اوپر اور اخفی کا مقام وسط میں ہے نفس پیشانی پراورسلطان الاذکار پورے جسم پر حاوی ہے ۔

بقول حضرت حاجی امداداللہ مکی۔

انسان کے جسم میں چھ جگہیں انوار و برکات سے پرہیں اور یہی لطائف کہلاتی ہیں ۔ بقول حضرت سلطان باہو۔

سری قلبی ، روحی ،صوری ، اخفی خفی کماون ہو
میں قربان تنہاں توں با ہو جیہڑے اکس نگاہ جگاون ہو

اگرچہ الطائف کے مقامات اور انوارات کے رنگوں میں صوفیاء کا قدرے اختلاف ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ لطائف آئینوں کی طرح باہم مربوط ہیں ۔ اس لیے ایک دوسرے کے انوار آپس میں بعض اوقات اس طرح منعکس ہو جاتے ہیں کہ تمیز کرنا مشکل ہو جا تا ہے کہ کس لطیفے کے انوار ہیں ۔ البتہ فقیر کمال کی تحقیق کے مطابق پہلے لطیفے کا رنگ زردسرخ ، دوسرے کا سفید ،تیسرے کا سیاہ ، چو تھے کا نیلا ، پانچویں کا سبز اور مچھٹے ساتویں میں سب رنگوں کا امتزاج ہوتا ہے ۔ لطائف کامحل وقوع حسب ذیل نقشے سے واضح ہو جاۓ گا۔

پہلے لطیفے کا فیض حضرت آدم سے متعلق ہے اور اس کے انوارات و برکات آسمان اول سے آتے ہیں ۔ دوسرے کا حضرت نوح حضرت ابراہیم اور آسمان دوم سے ، تیسرے کا حضرت موسی اور آسمان سوم سے ، چوتھے کا حضرت عیسی اور آسمان چہارم سے اور پانچویں کا رسول اکرم ﷺ اور آسمان پنجم سے ہے ۔ چھٹے اور ساتویں لطائف کے جاری ہونے پر چھٹے اور ساتویں آسمان سے انوار و برکات نازل ہوتے ہیں ۔ ان لطائف پر ذکر کے دوران بعض اوقات صاحب کشف کو متعلقہ آسمان و نبی ، بیت العزت ، بیت المعمور اور سدرۃ المنتہی کی زیارت بھی نصیب ہو جاتی ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ان لطائف کوروح میں وہی حیثیت حاصل ہے جوحواس خمسہ کو جسم میں حاصل ہوتی ہے ۔ اگر کسی کے جسمانی حواس معطل ہو جائیں تو وہ ایک جاندار گوشت کا لوتھڑارہ جا تا ہے اور اس کی زندگی وبال جان بن جاتی ہے ۔اسی طرح جس آدمی کی روح کے یہ لطائف تاریک ہوں تو اس کی ساری روح ناکارہ ہو جاتی ہے ۔ چونکہ قبر اور آخرت میں روحانی زندگی ہوگی اس لیے اس شخص کی اخروی زندگی مصیبت بن کر رو جاۓ گی ۔

اتنی اہم اور انقلاب پرور تاثیر سے مملو عبادت کو فراموش کر دینے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج ہم سوزو ساز رومی اور پیچ وتاب رازی سے محروم ہیں۔۔۔نماز پڑھتے ہیں مگر ذخیرہ اندوزی اور کینہ توزی سے بازنہیں آتے ۔۔۔ حج کرتے ہیں لیکن کاروبار سیاہ میں ملوث ہونے سے احتراز نہیں کرتے ۔ روزہ رکھتے ہیں مگر پڑوی کے فاقوں کے احساس سے عاری ہیں ۔۔۔ گو یا خلوص فی الاعمال سے کوئی سرد کار  نہیں رکھتے ۔۔ الغرض جب تک اللہ کریم کے ذکر سے دل آباد رہتا ہے ، مشیت ایز دی کے باعث حسن عمل کی توفیق ملتی اور زندگی سکون ومسرت کا گہوارہ بنی رہتی ۔ اور جو نہی دل غفلت کا شکار ہوتا ہے انسان حرس و آ ز کا بند و ، ہوا و ہوس کا پچاری او سیرت و کردار کی پاکیزگی سے عاری اور مخارب اخلاق کا عادی ہو جا تا ہے ۔ ۔ ۔ اور جب کوئی معاشرہ ان برائیوں میں مبتلا ہو جاۓ تو امن واطمینان غارت اور راحت وشادمانی عنقا ہو جاتے ہیں ۔ جنگل کے قانون کی بالادستی ہوتی ہے ۔۔۔ زبردستور بازوۓ چیرہ دست دراز ہو جا تا ہے اورز می دستوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔

اللہ رب ذوالجلال والا کرام کا رہ اسم ذاتی ہے جس کے ذکر سے شیشہ دل سے کثافت دور ہو کر اس میں چک پیدا ہوتی ہے اور جب بی شیشہ پوری طرح منور ہو جاۓ تو اس میں تجلیات باری تعالی ہر آن جلوہ بار ہوتی ہیں اور خواہشات نفسانی کے بت پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ تزکیہ باطن ہے جس سے دنیوی و اخروی فلاح وشادکامی وابستہ ہے۔

:ارشادالہی ہے
قد افلح من تزکیه وذگر اسم ربه فصلی. “بے شک یا مراد ہو گیا وہ شخص جو ترے اخلاق سے پاک ہو گیا اور اپنے رب کا نام لیتار ہا اور نماز پڑھتارہا”۔‘

(سورۃ الاعلی، 87 – 15 – 14 )

گویا تزکیہ باطن اور ذکر اسم ذات لازم وملزوم ہیں ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سلاسل سلوک میں ذکر اسم ذات کوتصوف کے قصررفیع الفان کی بنیاد ٹہرایا گیا ہے۔

Zikr Ki Ahmiyat Aur TaqeedBuraian