تحریر: سید حسنات احمد کمال

پیرسید فضل احمد شاہ صاحب سترویں صدی کے آخری عشرے میں پیدا ہوۓ تھے آپ کے والد گرامی کا نام نامی حافظ سید میر حسن شاہ تھا جو اپنے دور کے ولی کامل تھے پیرفضل شاہ صاحب میرے پردادا تھے ۔ پیر سید میراں شاہ والے مضمون میں انکاذکر سید ضمیر جعفری صاحب کے حوالے سے بھی موجود ہے پیر فضل شاہ صاحب کے ماموں حضرت پیر حامد شاہ صاحب بھی صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے۔سید ضمیر جعفری کے والد گرامی سید حیدرشاہ صاحب پیر سید حامد شاہ صاحب سے بیت تھے پیر حامد اپنے عقیدت مند مرید سید حیدرشاہ کی بارات کے ساتھ کھنیاراں شریف بھی تشریف لے گئے تھے بعد میں جب کھٹیاراں شریف گاؤں منگلا ڈیم میں ڈوب گیا تو وہاں سے کچھ بزرگوں کی قبور سے راولپنڈی مندرہ کے قریب ینو کھنیا را شریف میں بعض جسد خا کی لاکرانکی تدفین کی گئی تھی اور بعض میں پرانے کھنیارامیں ڈیم سےذراہٹ کے مدفون ہوۓ۔

سید ضمیر جعفری کے والد سید حیدر شاہ صاحب نے اپنے مرشد سید حامد شاہ سے قلبی عقیدت کی بنا پر وصیت کی تھی کہ انکی وفات کے بعد انہیں سید حامد شاہ صاحب کے قدموں میں دفن کیا جاۓ ۔ یوں انکی ہدایت کی روشنی میں چک عبدالخالق کے قبرستان میں سید حیدرشاہ سید حامد شاہ صاحب کے قدموں میں مدفون ہیں پیرفضل احمد شاہ کی روحانی تربیت میں جہاں آپ کے والد گرامی کی سعی اور کاوش شامل ہے وہاں آپ کے ماموں حامد شاہ صاحب کی بھی نگاہ مرد مومن کا فیض ہے ۔

پیرفضل شاہ صاحب کی محفل میں جنات بھی حاضر رہا کر تے تھے پیرسید میراں شاہ نے ایک واقعہ سنایا کہ بچپن میں ایک رات انکے پاؤں کو دبایا جانے لگ گیا تو انہوں نے اپنے والد پیرفضل شاہ صاحب سے کہا کہ نظر کوئی نہیں آرہا اور پاؤں دباۓ جارہے ہیں اس پر پیر فضل شاہ صاحب نے جنات کو جھٹرک کر کہا کہ میں نے اپنے پاؤں دبانے کا کہا ہے بچے کے نہیں۔

بابا جی پیر فضل شاہ صاحب کی زندگی میں ایک ایسا دور بھی آیا جب آپ دنیا سے الگ تھک ہو کر جنگلوں بیا بانوں کی طرف چلے جایا کرتے مجذوبیت کا یہ عالم تھا کہ دریا میں اتر جاتے اور تند و تیز لہروں کو چیرتے ہوۓ دریا کے اس پار جانکلتے آپ کی والدہ یوں آپ کا جنگلوں کی طرف نکل جانے پر پریشان ہو جایا کرتیں ایک روز غالبا 1928 ء کا واقعہ ہے جب پیرفضل شاہ نے نعرہ مستانہ لگا کر گھر سے نکلے تو انکی والدہ نے اپنے بھانجے سید گل حسین شاہ کو انکے تعاقب میں بجھا کہ کوئی تکلیف یا الجھن درپیش ہوتو وہ مدد کو پہنچے مگراسے اس وقت حیرت ہوئی جب پیرفضل شاہ صاحب دریا میں اتر گئے خالہ زاد نے پکارا واویلا کیا بچاؤ بچاؤ کی آوازیں لگایں حتی کہ ایک کشتی والے سے بھی پانی میں اترنے کا کہا مگر طوفان و باد و باراں کی وجہ سے اس نے کشتی کے ڈوبنے کو بہانہ بنا کرکسی قسم کی مددکرنے سے انکار کر دیالیکن حیرت کی اس وقت انتہا ہوگئی جب پر فضل شاہ صاحب تھوڑی دیر بعد دریا کے دوسرے کنارے پر!دکھائی دیے! اللہ اکبر

Hazrat Pir Syed Fazal Ahmad Shah

خیر بارش تھمی تند و تیز موجوں کا جوش کم ہوا تو سیدگل حسین شاہ نے ایک بار پھر ملاح سے دریا کے پار جانے کے لئے کہا وہاں پہنچ کرگل شاہ کو ایک اور درویش فقیر دکھائی پڑا اس سے اپنے کزن سی فضل احمد شاہ کی بابت پوچھاتو وہ درویش بولا کہ اپنی خالہ سے جا کر کہو کہ پیرفضل شاہ کا فیض اس علاقے میں ہے فکر نہ کیا کریں ۔

بابافضل شاہ ان دنوں دراصل دریا پار جنگل سے گزرکر چکسواری کے گاؤں بوعہ کلاں میں جایا کرتے تھے جہاں کے باشندے طاعون کے مہلک مرض میں گھرے ہوۓ تھے چوہے چھتوں سے گرتے رہتے تھے ایک ایک دیہات سے چھ چھ سات سات جنازے اٹھا کرتے تھے ان لوگوں نے جب اس ولی کامل مجذوب سید فضل شاہ صاحب کو دیکھا تو گڑگڑاۓ کہ بابا جی آپ اللہ کے قریب ہیں سفارش کیجے ہمیں اس موذی بیماری سے نجات دلائیں ان دنوں چونکہ ہسپتال اور ڈسپنسریاں تو دور دراز دیہاتوں میں ہوتی نہیں تھیں ویسے بھی 1928 ء میں شہروں کو بھی پوری طرح سہولیات میسر نہ تھیں چہ جائیکہ دیہات بہر طور ضرورت مندوں نے اپنا مال زرلا کر ڈھیر کردیا عورتوں نے زیورات پیش کئے۔

مگران روحانی شفا خانوں کے سربراہوں میں دنیا کی جاہ طلب اور حرض و ہوس کہاں ہوتی ہے بابا پیر سید فضل شاہ نے علاقے کے لوگوں کو کہا کہ ایک بھینسے پر گندم کی بھری بوری رکھ کر سانڈ کو گاؤں کے گرد چکر لگا کر وہ بھینسا گندم سمیت صدقہ کردیں اللہ سکون وآشتی سے نواز دے گا ایسا ہی کیا گیا اور یوں لوگوں کو اس موذی اور مہلک مرض سے جان خلاصی ہوئی وہاں کے لوگ آج تک بابا فضل احمد شاہ اورانکے اقربا کے آستانوں پر بڑی با قاعدگی سے حاضری دیتے رہے  ہیں سال ہا سال سے جاں نثاری ،محبت الفت اور عقیدت کا وہ رشتہ قائم ہے چکسواری کے سوسالہ بزرگ راجہ نجیب جن کا تعلق موضع دومیل سے ہے انہوں نے بابافضل شاہ صاحب کی طاعون سے شفاء کی کرامت کا ذکر خود مجھ سے کیا جوخودبھی اس مرض میں مبتلا ہو چکا تھا موضع دومیل کے ایک اور بزرگ حاجی باغ علی جن کی عمر تقریبا نوے اکانوے سال ہے انہوں نے کہا کہ ان کے علاقے کے بہت سارے لوگ بحری جہازوں پر مزدورں کیا کرتے تھے ایک دفعہ ایک جہاز ریت پرچڑھ آیا اور خشکی میں پھس گیا کافی دن گزر گئے انگریز سرکار نے کافی جیتن کۓ مگر بات نہ بنی راشن بھی ختم ہوتا جا رہا تھا۔

Hazrat Pir Syed Fazal Ahmad Shah

کہیں سے کوئی امداد نہ پہنچی تو ایک رات پیر سید فضل شاہ صاحب نے خواب میں آ کرکہا کہ اے میرے مرید پریشان نہ ہو میں اللہ پاک کے حکم سے تم لوگوں کا جہاز سمندر میں اتار دیتا ہوں اور اگلی صبح ایسا ہی ہوا۔ ایک بار دور دراز علاقے کے مریدوں نے کہا کہ حضرت شاہ صاحب رابطے کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اگر آپ کا وصال ہو گیا تو ہمیں کیسے پتہ چلے گا جو پیرفضل احمد شاہ صاحب نے کہا تھا کہ جب بےتحاشہ بارش ہو آندھی اور طوفان قیامت کا منظر پیش کر رہا ہوتو سمجھ لینا میں مر گیا واقعی پھر ایسا ہی ہوا تھا لوگ بتاتے ہیں کہ پیر فضل احمد شاہ صاحب کے جنازے کے روز اس قد ر بارش ہوئی تھی کہ گھٹنوں تک پائی تھا۔
پیرفضل شاہ صاحب نے جس روز دنیا سے پردہ فرمایا اس روز اپنے پڑوسیوں کو بلا کر کہا کہ وہ فوت ہونے لگے ہیں لہذاتم محشر میں گواہ رہنا کہ میں حالت ایمان میں فوت ہوا تھا ۔ انکی نماز جنازہ علاقے میں موجود موہڑہ شریف کے ایک بزرگ نے پڑھائی تھیں ۔ پیرسیدFazalفضل شاہ صاحب کا وصال 2 نومبر 1944 ء بروز جمعرات کو ہوا تھا میاں محمد صاحب نے کہا تھا کہ

ولی اللہ دے مردے ناہیں کردے پردہ پوشی
کی ہویا ہے دنیا اتوں ٹر گئے نال خموشی

باباجی فضل شاہ صاحب ایک دفعہ اپنے مرید نواب دین کے گھر گئے اس نے شاہ صاحب اورانکی سواری کی بہت تواضح کی آپ نے خوش ہو کر نواب دین سے کہا کہ نواب دین تم نے میری جیب سے چارلڑکے نکال لئے نواب دین سادگی میں پکار اٹھا نہیں حضور ایسا میں نے بالکل بھی نہیں کیا مگر خاندان کے لوگوں سے کہا کہ مجذوب کی بات میں پوشید رمزوں کو سمجھ یوں رب تعالی نے نواب دین کو چار بیٹے عطا کئے جواب بھی حیات ہیں باباسید فضل احمد شاہ حقہ بہت پیتے تھے جبکہ امیر شریعت سید جماعت علی شاہ تمباکو پینے والوں کو پسند نہ کرتے تھے کہ بیعت کرتے وقت مرید سے وعدہ لیا کرتے تھے کہ وہ تمباکو نوشی نہیں کرے گا چونکہ بابا فضل احمد کے بیٹے سید میراں شاہ سید جماعت علی شاہ کے مرید تھے ایک دن جماعت علی شاہ فضل احمد کےگھر آۓ تو بابا جی حقہ پی رہے تھے مگر سید جماعت علی شاہ نے آگے بڑھ کے بابا فضل احمد کو سینے سے لگالیا ساتھ آۓ عقیدت مندوں نے اس راز سے اگا ہی چاہی تو سید جماعت علی شاہ نے فرمایا کہ یہ مقبولان بارگاہ خداوندی ہیں اس واقعہ سے آپ کی ولایت کی خبر ملتی ہے۔

باباجی کے ایک عقیدت مند نے بھی ایک کرامت بیان کی تھی کہ برطانیہ میں ملازمت کے دنوں میں سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے فیکڑی مالکان نے بڑی عمر کے لوگوں کو نوکری سے برخاست کرنا چاہا تو وہ پریشان ہوگیا مگررات خواب میں بابافضل شاہ صاحب نے کہا فکر نہ کر تمہیں کوئی نہیں نکال سکتا اگلے روز جب نوکری سے نکالے گئے لوگوں کی فہرست آویزاں کی گئی تو اس میں اس شخص کا نام نہیں تھا ۔ اس طرح وہ اللہ کے کرم اور بابا جی کی کرامت سے نوکری سے برخاست ہونے سے بچ گیا۔

Hazrat Pir Syed Fazal Ahmad Shah