سیدحسنات احمد کمال

آپ کا نام  باغ حسین جبکہ تخلص کمال تھا۔ چکوال کے نواح میں واقع ایک مشہور قصبہ پنوال میں 22 مارچ 1937ء کو پیدا ہوۓ ۔ آپ کا ذکر آتے ہی ایک ایسی ہستی کا تصور آ تا ہے جس نے ذکر اسم ذات ’’اللہ اور درودشریف کی ترویج کواپنی زندگی کا محور اور مقصد بناۓ رکھا۔ خاص طور پر درودشریف کو آپ نے درجہ کمال تک پہنچایا اور ایسے ایسے ریکارڈ قائم کئے کہ انہیں رہتی دنیا تک بطور مثال پیش کیا جا تارہے گا ۔

آپ نے اپنی کتاب’’ حال سفر‘ میں روزانہ کے معمولات کے بارے میں فرمایا کہ کم از کم سوا دولاکھ درودشریف میراروزانہ کا معمول ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک راز ہے ۔ ڈاکٹر خواجہ عابد نظامی ماہنامہ درویش فروری 2001 ء کے شمارے میں حضرت پروفیسر باغ حسین کمال پر لکھے گئے مضمون میں رقمطراز ہیں کہ سوا دو لاکھ مرتبہ ہر روز درودشریف پڑھنا بظاہرممکن معلوم نہیں ہوتا۔ اس لئے بعض احباب مجھ سے اس بارے میں استفسار بھی کرتے ہیں تو میں انہیں پیر محمد کرم شاہ الازہری سے اپنی گفتگو کا حوالہ دیتا ہوں کیونکہ پیرمحمد کرم شاہ نے کہا ہے کہ آپ نے کئی بزرگوں کے حالات میں پڑھا ہو گا کہ اسم اعظم کی برکت سے وہ میلوں کا سفر چند ثانیے میں تے کر لیتے ہیں ۔ تصوف کی اصطلاح میں اسے علی الارض کہتے ہیں انسان کے اندر یہ کمال پیداہو جا تا ہے کہ وہ کم مدت میں بہت زیادہ تعداد میں درودشریف پڑھ سکتا ہے۔اس کا تعلق اس کی محبت محنت اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشم عنایت سے ۔ طی اللنسان کو بھی طی الارض کی طرح کرامت ہی سمجھنا چاہیے۔

آگے چل کر ڈاکٹر خواجہ عابد نظامی لکھتے ہیں کہ درود شریف کی مطلوبہ تعداد پوری کرنے میں پروفیسر باغ حسین کمال کے تقریبا 16 گھنٹے صرف ہوتے تھے۔’’طی اللنسان‘‘ کو بجھنے کیلئے ان بزرگوں کے حالات پر غور کر نا چا ہیے ۔

جو کہ ایک رات میں دو دومرتبہ قرآن مجید ختم کر لیتے ہیں ۔ حضرت پروفیسرباغ حسین کمال المعروف حضرت جی رحمتہ اللہ علیہ نہ صرف خود بلکہ اپنے متوسلین کو بھی تمام عم درودشریف کی تلقین اور ترغیب دیتے رہے اور فرماتے تھے کہ مجھے جو کچھ ملا اس درود شریف کی برکت سے ملا اس طرح انہوں نے اپنے عام مریدین کیلئے جو راست راہ پہ چلنا چاہتے ہیں کم از کم پانچ ہزار مرتبہ اور مراقبات والے ساتھیوں کیلئے کم از کم دس ہزار درود شریف روزانہ پڑھنے کا نصاب مقرر کیا۔ الحمد للہ آج بھی آپ کے تربیت یافتہ مرید ین میں سے لاکھ اور ڈیڑھ لاکھ مرتبہ روزانہ درود شریف پڑھنے والوں کی انچی خاصی تعداد موجود ہے۔

ذوق وشوق سے درودشریف پڑھنے کا حال خود کمال صاحب نے اپنی کتاب حال سفر میں اس طرح بیان کیا ہے ۔ لکھتے ہیں : اگر چہ درودشریف پہلے بھی میرامعمول تھالیکن 75 – 7 – 29 کو اپنے حضرت جی رحمتہ اللہ علیہ  کے حلقہ ذکر میں شامل ہوا تو درود شریف سے انس مزید بڑھ گیا اور میں نے روزانہ بلا ناغہ دس ہزار مرتبہ درود شریف اور دس ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ کا ورد اپنا معمول بنا لیا تانکہ رمضان شریف 1978 ء کے اعتکاف کے دوران دل میں خیال پیدا ہوا کہ ان میں سے ایک کو اختیار کرکے درجہ کمال تک پہنچانا چاہیے۔ چنانچہ درودشریف سے طبعی لگاؤ کے باعث اسےاختیار کیا گیا۔ نصف رات کے وقت دل کی یہ بات دعا کی صورت میں لبوں پر آ گئی ۔ بارگاہِ الٰہی میں دست دعا بلند ہوا۔

Faqir Prof Bagh Hussain Kamal

انہی مجھے تا حیات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کم از کم ایک کروڑ بار سالانہ درود شریف کے ایصال کی سعادت مرحمت فرما۔ رب العالمین ! میرے مالک مجھے امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان پہلے سوخوش نصیبوں میں شامل فرما جنہوں نے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کے صدقے کمال کو اس نعمت لا زوال وبے مثال سے مشرف فرمایا گیا۔ اگلے سال کیم رمضان شریف کو میرا ایک کروڑ درودشریف پورا ہو چکا تھا ۔ میری مسرت و انبساط کا عجیب عالم تھا۔ میری مراد برآئی تھی ۔ میرے لئے یہ عید کا دن تھا۔ میراذوق وشوق اور عزم و حوصلہ بتدریج بڑھتا چلا گیا ۔ میرے دن اور میری راتیں درود شریف کیئے وقف ہو گئیں ۔ پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔حتی کہ 19 فروری 1987 کو 37 کروڑ کی تعدامکمل ہوئی اور زیادہ سے زیادہ ایک راز ہے اسے راز ہی رہنے دیں ۔ فقیر پروفیسر باغ حسین کمال اس درجہ کمال تک اپنے مرشد کامل کی نگاہ فیض کے اثر کی بدولت پہنچے ۔آپ ’’حال سفر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ فقیر کا سلسلہ اویسیہ ہے یہ سلسلہ بے پناہ قوت کا حامل ہے۔ یوں سمجھئے کہ سالک کوخوبی قسمت سے پیدل یا سائکل کے بجاۓ ہوائی جہاز کی سواری میسر آجاۓ ۔ مزید لکھتے ہیں کہ سلسلہ اویسیہ سے مراد یہ ہے کہ جس طرح حضرت اویس قرنی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ظاہری ملاقات کی سعادت سے محروم رہنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح پرفتوح سے اخذ فیض کیا ، اسی طرح اولیاۓ برزخ میں سے کسی ایک یا زیادہ مشائخ سے فیض حاصل کرنے کو اویسیہ طریقہ سے موسوم کیا جا تا ہے۔ اس سلسلہ کے سردار حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ ہیں ۔ اس تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ فقیر پروفیسر باغ حسین کمال صاحب کو اویسیہ طریقہ سے بھی فیض پہنچا کیونکہ قادریہ سلسلہ میں وہ اپنے والد ماجد سے بھی بیعت تھے ۔ آپ نے مارچ 1991ء کےخطاب میں فرمایا کہ میرا اور میرے سلسلے کا امتیاز ہی نشان درودشریف ہے ۔

میں چاہتا ہوں کہ آپ میں سے ہر آدمی کم از کم ایک ہزار مرتبہ روزانہ درودشریف پڑھے اور ہر شخص ایک ہزار مرتبہ درودشریف پڑھنے کیلئے وقت نہیں نکال سکتا تو میں سمجھتا ہوں کہ اسے راہ سلوک پر قدم رکھنے کی ضرورت نہیں ۔ حضرت پروفیسر باغ حسین کمال نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ ساتھیوں کی طرف سے 10 کھرب درودشریف کا عظیم الشان تحفہ بارگاہ رسالت صلی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں یہ درخواست پیش کی ان کے سلسلے کے ساتھیوں کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اول نمبر پہ درودشریف پیش ہو۔ قارئین آپ کی يہ دعا اللہ کے فضل و کرم اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہ لطف و کرم کے صدقے پوری ہوئی ۔ مارچ 2014 ء کے سالانہ اجتماع کے موقع یہ آپ کےساتھیوں کی طرف سے 10 کھرب درود شریف کا عظیم الشان تحفہ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کیا گیا۔

این سعادت بزور بازونیست
تا نہ بخشز خدائے بخشدہ

حضرت پروفیسر باغ حسین کمال رحمتہ اللہ علیہ  ساتھیوں کو تلقین فرماتے تھے کہ اپنی ساری ہمت اور طاقت درودشریف پڑھنے پہ لگا دو کیونکہ قرآن کریم کی تلادت کرنے والے حفاظ ہزاروں میں لیکن درودشریف کو بطورورداپنانے والے بہت کم ہیں ۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے مشائخ نے بھی درودشریف کی طرف براۓ نام توجہ دی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میرے ساتھی درود شریف پڑھتے ہی رہتے ہیں لیکن شب 10 بجے تا 10; 20 بجے تک یعنی یہ 20 منٹ بہت قیمتی ہیں ۔فرمایا کہ ساتھی جہاں وقف بھی ہوں جس حالت میں بھی ہوں وضو ہو یا نہ ہو یہ 20 منٹ ضائع نہ کریں، ان لمحات میں ضرور درودشریف پڑھیں ۔ حضرت جی فرماتے تھے کہ درج ذیل درود شریف پڑھنے کی نسبت انہیں براہِ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتی ہے۔

Faqir Prof Bagh Hussain Kamal

آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ دربار اقدس میں یہ درودشریف بہت پسند کیا جا تا ہے اس سلسلہ میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اپنے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم رحمتہ اللہ علیہ کا ایک خواب’’انفاس العارفین‘‘ میں بیان فرماتے ہیں۔

فرماتے تھے ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا ۔ گویا حاضرین میں سے ہر شخص اپنی فہم اور معرفت کے مطابق درودشریف پیش کر تا ہے ۔ مجھ سے بھی درودشریف ( درج بالا ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنا تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس پرانتہائی خوشی ومسرت کے آثار ظاہر ہوۓ ۔ حضرت جی رحمتہ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ جب میں نے یہ واقعہ پڑھا تو مراقبہ کرتے ہوۓ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں خوشی سے عرض کیا۔ “یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن اتفاق سے آپ کا پسند یدہ درود ہی میرا شغل ہے۔

:آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شانتگی کے عالم میں فرمایا
“بیٹے تمہیں اس درودشریف کی نہایت عظیم الشان نسبت عطا کی گئی ہے جو پہلے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی ۔اس نسبت کی تا ثیر وفیض کےتحت ہی تمہارے لئے اتنی کثیر تعداد میں درود پڑھناممکن ہوا‘‘
کثرت درودشریف کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت پروفیسر باغ حسین   کمال صاحب رحمتہ اللہ علیہ  کو کچھ بشارتیں عطافرمائیں حضرت پروفیسر باغ حسین کمال رحمتہ اللہ علیہ  ان بشارتوں کے حوالے سے خود فرماتے تھے کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص یہ پڑھ کر کہ اٹھے کہ اس شخص نے مغفرت کا اتنا سستا کاروبارکھول لیا ہے جس پہ آپ فرماتے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث میرے پیش نظر ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوفر ماتے سنا کہ جس نے کوئی ایسی بات مجھ سے منسوب کی جو میں نے نہیں کی تو ایسا شخص اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے‘‘ ( روائت البخاری)

:چھ بشارتیں درج ذیل ہیں

جو کوئی تیرے حلقہ ذکر میں بیٹھ کر ایک بارذکر کرے گا یا تیری امامت میں نماز پڑھے گایا جس متوفی کے لئے تو دعاۓ مغفرتکرے گا یا بعد وصال تیرے مزار پر بیٹھ کرذکرکرے گا اسے بخش دیا جاۓ گا۔

تو چا ہے تو پہلی ہی بارایک نشست میں لطائف ومراقبات کرا کر بالائی منازل میں باب مغفرت تک رسائی اور کعبہ شریف ، روضہ اطہر اور دربار اقدس میں پہنچانےکا مجاز ہے۔

تجھے ہر سال لیلۃ القدرنصیب ہوگی اور ساتھیوں کومشاہدہ کرا سکے گا۔
جوکوئی صدق نیت سے تیری زندگی میں یا وصال کے بعد ایک باربھی تیرے پاس یا تیرے مزار پر فیض کے لیے آۓ گا اس کا روحانی رابطہ تجھ سے قائم ہو جاۓ گا اور وہ تجھ سے غائبانہ طور پرفیض حاصل کر تا رہے گا ۔

تمہاری شہادت کی موت کی دعا قبول ہو چکی ہے ۔

تمہیں ولایت کی ساری شاخیں عطا کی گئی ہیں اور سب شاخوں میں بطورسر براہ تیرافیض تا قیامت جاری رہے گا۔

میرے حضرت جی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سوا دولاکھ درودشریف کا کثیر تعداد میں جونذرانہ پیش کرتے تھے تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہمیشہ آپ کے پیش نظر رہتا تھا کہ”کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرمائیں کہ اگر آپ کی ذات برکات پہ درود پاک ہی وظیفہ بنالوں تو کیسا رہے گا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تو ایسا کرے گا تو اللہ تبارک تعالی دنیا و آخرت کے تیرے سارے معاملات کیلئے کافی ہے ۔

وظیفہ درودشریف کے ساتھ ساتھ حضرت جی رحمتہ اللہ علیہ  اپنے ساتھیوں کو پابندی ء ذکر اسم ذات کی بےحد تلقین فرماتے تھے ۔ آپ فرماتے تھے کہ ہر بزرگ خواہ وہ تاریخ کے کسی عہد میں ہواس کا ایک ہی مشن ہوتا ہے کہ نہ صرف خوداللہ تعالی کا قرب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرب حاصل کرے بلکہ اپنے مریدین کو بھی وہاں پہنچاۓ ، اس کیلئے جو وسیلہ اختیار کیا جا تا ہے

وہ اللہ تعالی کا ذکر ہے ۔ اسم ذات کا ذکر ہے سب بزرگوں نے اسے اسم اعظم کہا ہے آج ان کی قبر میں مرجع خلائق ہیں۔ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ وہاں روزانہ ان کی بارگاہ میں حاضری دیتے ہیں ۔جبکہ اس کے برعکس بادشاہوں کی قبروں پہ کوئی جانے کا ادارہ نہیں ۔ پتہ بھی نہیں کہ کون بادشاہ کہاں مرا اور کہاں پہ دفن ہے! ہر دور میں علماۓ کرام ہوۓ ہیں ، انہوں نے فقہ حدیث اور تفسیر کا درس دیا ہے اور ہرقسم کی تبلیغ بھی کی ہے ۔ مگر اس کے باوجود انکے مزاروں پر کوئی نہیں جا تا اوراگر جا تا ہے تو صرف ان لوگوں کے مزاروں پہ جنہیں ہم اولیائے کرام کہتے ہیں ۔ حضرت جی فرماتے تھے کہ’’حال سفر‘‘ میں، ان میں نے دو چیزوں کی دعوت دی ہے، پہلے تو اسم ذات کے ذکر اور قرآن و حدیث کی رو سے اس کی نفسیات اور اہمیت بیان کی ہے ۔

اس کے بعد روح کا سفر کہ روح کا سفر کیا ہے روح کہاں تک جاسکتی ہے! دوسری  بات جس کی میں نے دعوت دی ہے وہ درودشریف کو پھیلا نا ہے ۔‘‘ حضرت جی رحمتہ اللہ علیہ اپنے ساتھیوں کو یہ فرماتے تھے کہ جب آپ لوگ ذکر کی پابندی کریں گے تو انشاء اللہ نماز کی پابندی خودبخو د ہو جاۓ گی اور نماز میں چاشنی تب ہی پیدا ہو گی جب آپ ذاکر ہوں گے,ساتھ یہ فرماتے کہ مجھے یہ قطعاََ ہوس نہیں ہے کہ سارے لوگ میرے بیعت ہو جائیں ، لاکھوں مرید ہوں لیکن میری یہ خواہش ضرور ہے کہ لوگ ذکر اسم ذات کر نا شروع کردیں کیونکہ ایک انسان کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ اللہ کا ذکر کرے۔ آپ فرماتے تھے کہ حسد ، تکبر ، ریا ،جھوٹ فریب بددیانتی ، چغلی بی ساری بیماریاں قلب کی بیماریاں ہیں اور قلب کو چکانے کا واحد طریقہ اللہ تعالی کا ذکر ہے ۔ اور صوفیاء کے نزدیک تزکیہ باطن کیلئے ذکر اسم ذات بنیادی درجہ رکھتا ہے ۔ اور وہ بھی ’’ذکر خفی قلبی‘اور یہ ذکر ’’خفی قلبی‘‘ وہ ہے جس کو حد یث شریف کی روسے 70 گنا فضیلت حاصل ہے۔

حضرت جی دوران خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ جو کہ بخاری شریف میں ہے کا حوالہ ا کثر دیتے تھے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جس جگہ اللہ کا ذکر ہوتا ہے وہاں ملائکہ حاضر ہوتے ہیں بعد از ذکروہ ملائکہ جب اللہ کی بارگاہ میں جاتے ہیں تو اللہ تعالی فرما تا ہے کہ فرشتو خوش خبری سنا دو ذکر کر نے والوں کو کہ اللہ رب العزت نے سب کی بخشش فرما دی ۔ ایک فرشتہ اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتا ہے یا اللہ اس ذکر کی محفل میں ایک ایسا بندہ بھی تھا جو تیراذکرنہیں کر رہا تھا تو اللہ تعالی فر ما تا ہے کہ اس ذکر نہ کرنے والے کو میں نے ذاکرین کے ساتھ نکش بیٹھنے کی وجہ سے بخش دیا ہے۔ حضرت جی فروغ اسلام ، نفاذ اسلام اور غلبہ اسلام کے زبر دست داعی تھے ۔

فروغ اسلام کیلئے خانقاہی نظام کے کردار کو سراہتے ہوۓ فرماتے تھے کہ کن فقیران بور بانشین کی خانقاہوں میں جلنے والے چراغوں کی ضوہی سے ظلمت سیماب یا ہوتی رہی ہے ۔ یہیں سے سکون لا زوال کی دولت بنتی رہی ہے ۔ ان خانقاہوں سےاٹھنے والی اللہ اللہ کی صدا کی ۔ ضربوں سے شیطانی قلع مسمار ہوتے رہے ہیں۔ آج یہ خانقاہی ؟ نظام بظاہر کتنا مضمحل ہو چکا ہو۔ اس کی روحانی طاقت کمزور ہو چکی ہو۔ مگر باطل کے مقابلہ کیلئے جس یقین محکم اور ایمان کامل کی قوت درکار ہے وہ آج بھی یہیں سے حاصل ہوں ۔ والے مر کر بھی نہیں مرتے ۔ان کے جسم دنیا سے اوجھل ہو جاتے ہیں مگر روح پہلے سے کہیں زیادہ توانا ہو کر سرگرم عمل ہو جاتی ہے ۔ وہ مامور من اللہ ہوتے ہیں ان کی کچھ ڈیوٹی ہوتی ہے ان کی فیض رسانی کی قوت پہلے سے فزوں تر ہو جاتی ہے آپ موجودہ دور کے سجادہ نشینوں اور علماء سے مخاطب ہو کر فر ماتے تھے کہ میرے دور کے اے سجادہ نشین ! تو اپنے آباؤ اجداد کی روایت اپنا لے۔اپنی خانقاہوں ، مدرسوں اور مسجدوں میں مجالس ذکر آ راستہ کرو۔

اسم ذات اللہ کے ذکر کی باتوں سے فضاؤں کو آباد کر لے، انشاء اللہ تو دیکھے گا کہ شیطانی فوج میں کیسی بھگدڑ مچھتی ہے ۔ ابلیسی لشکر کیسے راہ فرار اختیار کرتا ہے۔ اللہ کارنگ کیسے پڑھتا ہے ۔ معاشرہ کیسے اصلاح پذ یر ہوتا ہے اور نفاذ اسلام کی راد میں روڑے اٹکانے والے کیسے منہ کی کھاتے ہیں ۔ جوسرور، جو کیف ، جولذت ، جو سواد، جوسکون ، جوحسن اور جوخیر ذکر الہی میں ہے وہ نفسانی مشاغل میں کہاں ۔ بس تو اپنے مریدین و شاگردان کو اس لذت سے اشنا کر دے۔

 

یہ نسخہ خود استعمال کر اوردوسروں کو کرا۔ چراغ سے چراغ جلا تا جا۔ چند روز و حیات مستعارکوغنیمت جان ۔ کیا خبر کب سانس کی ڈوری ٹوٹ جاۓ ۔ چراغ حیات بڑھ جاۓ کسی سے بھی نفرت نہ کر یہی محبت اللہ کے بندوں اور حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر امتی کیلئے وقف کر دے ۔ نفرت کو مٹا ، محبت کو بڑھا اور میرا ہم عناں ، ہم زبان بن جا، کہ بقول شاعر:

میراپیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔

ذکر درودشریف کے حوالے سے آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے مریدین پہ بے جا پابندیاں نہیں لگاتے تھے۔ ذکر کے حوالے سے آپ فرماتے تھے کہ جو ساتھی اگر اپنی کسی مصروفیت کے باعث صبح و شام ذکرنہ کر سکے تو کم از کم رات بستر پہ لیٹ کر ہی چندمنٹ ذکر کر لے ۔ اس طرح درودشریف کیلئے اگر مکمل وضونہیں بھی ہے تو کم از کم طہارت ضرور کر لینی چاہیے اور درودشریف جہاں پڑھا جاۓ وہ جگہ پاک ہونی چاہیے ۔ آپ فرماتے تھے کہ نماز سے چھوٹے گناہ ختم ہو جاتے ہیں ، بداعمالیوں اور کبیرہ گناہوں کے باعث دل پہ سیا ہیاں آجاتی ہیں وہ حرف اسم ذات ’اللہ‘ کے ذکر سے ہی ختم ہوتی ہے، بالکل ایسے جیسے ہلکا میلا کپڑاہوتو خود، دھونے سے صاف ہو جا تا ہے لیکن زیادہ میلے کپٹرے کو بھٹی پر چڑھانا پڑ تا ہے تب صاف رہتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں فرمایا گیا ۔ ترجمہ ہر چیز کو چمکانے کیلئےصیقل (پالش) ہے اور دلوں کا صیقل اللہ کا ذکر ہے۔

حضرت جی رحمتہ اللہ علیہ اپنے ساتھی مریدوں کو چار بنیادی تسبیحات پڑھنے کے لئے ضرور دیتے تھے،بسم اللہ شریف کلمہ طیبہ، تیسراکلمہ ، استغفار اور فرماتے تھے کہ ان کو صبح اور شام لازمی 100 + 100 بار پڑھ لیں اور باقی ۔ درود شریف پڑھتے رہیں ، وگرنہ اگر بہت زیادہ مصروف ہوں تو وہ 10 ,10 مرتبہ پڑھنا مت بھولیں ۔ حضرت جی نے حال سفر میں کہا کہ درباراقدس میں حاضری کے موقع پر حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بطور خاص مخمسات عشر کا وظیفہ عنایت فرمایا۔ آپ فرماتے تھے کہ خمسات عشر والا وظیفہ تو ہے ہی برزخ اور آخرت کے لئے مگر اس کے دنیاوی برکات اور اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں کوشش کریں کہ ان کوبھی جاری رہیں ۔

:مخمسات عشر ملاحظہ فرمائیں

    سورة الفاتحه-

 سورة الكوثر-

 سورة الاخلاص-

سورة الفلق-

 سورة الناس-

کلمه طیبه-

كلمه تمجيد-

 أستغفر الله ربي من كل ذنب وأتوب إليه-

 ربنا اتنا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النار

 اللهم صل على محمد ن النبي الأمي وعلى آله وصحبه وبارل وسلم

آپ رحمتہ اللہ علیہ  فرماتے تھے کہ ان اوراد و وظائف کے علاوہ سارا وقت اور اپنی ساری ہمت درود شریف پڑھنے میں وقف کردیں۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کی روحانی اور دینی تعلیم و تربیت کیلئے موضع پنوال میں دارالفیضان‘‘ کے نام سے خانقاد قائم کی تھی ۔ آپ کا مزار مبارک اسی خانقاہ میں واقع ہے۔ آپ اپنی حیات مبارکہ میں خانقاہ دارالفیضان آنے والے ساتھیوں کو ذکر خفی قلبی کراتے ۔ لطائف ومراقبات کر کے ساتھیوں کی روحانی استعداد کے مطابق نہیں روحانی طور پہ خانہ کعبہ شریف ، روضہ اطہراور در بار اقدس میں بار یاب کراتے تھے۔ آج بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی اس خانقاہ دارالفیضان میں آپ کے بیٹے قاضی مرادکمال جن کو آپ نے اپنی زندگی میں سجادہ نشین مقرر کیا تھا۔ آپکے ساتھیوں کو ذکر ، لطائف اور مراقبات کرارہے ہیں اور مخلوق خدا کی خدمت اور تعمیرسیرت میں اپنے والد گرامی کی روایت کو خوش اسلوبی سے نبھار ہے ہیں۔ حضرت پروفیسر باغ حسین کمال رحمتہ اللہ علیہ  کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ 1984 ءسے لیکر 1990 ء تک آپ نے 7 سال تک کالج کی مسجد میں نفلی اعتکاف فرمایا اور 7 سال مسلسل روزے بھی رکھے ۔

حضرت جی رحمتہ اللہ علیہ  حال سفر میں لکھتے ہیں کہ 4 اپریل 1984 کومغرب کے ذکر میں مراقبات کے دوران جب میں در باراقدس میں پہنچا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم پہلے ہی ایک روحانی ڈیوٹی ادا کر ر ہے ہونگرتمہیں مزید ایک غیر معمولی مشن سونیا جار ہا ہے ۔ جنات پہ تمہیں خصوصی تصرف عطا کیا گیا ہے۔ دیگر روحانی امور کے علاوہ جنات کی تبلیغ وایثار کا خصوصی فریضہ بھی تم نے انجام دینا ہے ۔عالم جن و انس میں اتحاد اسلام ، نفاذ اسلام غلبہ اسلام کے سلسلہ میں اللہ تعالی تمہارے وجود سے بڑا کام لینا چاہتے ہیں ۔

اس باب میں آ گے آپ رحمتہ اللہ علیہ  لکھتے ہیں کہ اب جبکہ تین سال کی صبر آزما اورجاں گسل جد و جہد اور عالمگیر معرکہ ہاۓ حق و باطل کے بعد اللہ تعالی کے خصوصی فضل و کرم اور حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مسلسل توجہ اور ہدایت اور نگرانی کے تحت عالمی سطح پراتحاد اسلام نفاذ اسلام اور غلبہ اسلام کی منزل مراد حاصل کر لی گئی ہے مشن کے آغاز کے وقت کی کل 15 ارب آبادی میں سے صرف تین ارب مسلمان تھے۔ اب اللہ تعالی کے فضل وکرم سے صرف تین ارب غیرمسلم جنات رہ گئے ہیں ۔ و ماتوفیقی الا باللہ حضرت جی فرماتے تھے کہ جنات کے اس مشن کی کامیابی سے تکمیل پہ در باراقدس میں حاضری کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اب تمام عالم جنات میں نفاذ اسلام کی صورت میں تمہارا حسن کار کردگی سامنے ہے لہذا

اللہ تعالی نے تمہیں خصوصی فضل ورحمت سے ’’ منصب عبد ‘‘ سے نوازا ہے۔

حضرت جی رحمتہ اللہ علیہ حال سفر میں ہی لکھتے ہیں کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ روحانی سفر کی کیا سند ہے ۔ آپ فرماتے تھے کہ ان کے نزدیک واقعہ معراج شریف اس کی دلیل ہے ۔حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو جسد عصری سمیت دراء الورامنازل طے کر کے اللہ تعالی سے ملاقات فرمائی ۔ یہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نعلین پاک کی دھول کے صدقے یہ سفر نصیب ہوتا ہے اور یہ بہت بڑی کرامت ہے ۔ بقول حضرت امیر خسر ورحمتہ اللہ علیہ

!خداخودمیر مجلس بود اندر لا مکاں خسرو
محمدﷺ شمع محفل بودشب جائیکہ من بودم

حضرت باغ حسین کمال رحمتہ اللہ علیہ  سے بے شمار کرامتیں منسوب ہیں لیکن آپ نے 1987 ء کتاب لکھی تو اس کے حرف آخرمیں حال سفر میں آپ لکھتے ہیں کہ ’اسلام کی نشاۃ الثانی کے عظیم الشان دور کا آغاز ہو گیا ہے ۔اس کے نتیجہ میں جوکچھ عالم ظاہر میں انشاء اللہ تعالی رونما ہو نیوالا ہے۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے صدقے یہ فقیر کی چشم بصیرت نے دیکھ لیا ہے۔

آہ! تو بھی چشم تصور ہی سے دیکھ لے

اس صدی کے اوائل میں سرخ عفریت (روس) دند نا تا ہوا آیا اور وسط ایشیا کی اسلامی ریاستوں کو پامال کر کے رکھ دیا۔ اس کا حوصلہ بڑھا تو اب افغانشتان پر بھی چڑھ دوڑا۔ خون کی ہولی کھیلنے لگا۔مگر خودبھی لہو میں نہا گیا اور اب اپنے کیے پہ پچتارہا ہے جان بچار ہا ہے ، پلٹ رہا ہے، بھاگ رہا ہے ، اورسمٹ رہا ہے ۔ افغانستان کو چھوڑا اور وسط ایشیاءکو چھوڑ نا پڑا۔ اللہ اکبر۔ اب ماسکو کی فضاؤں میں بھی اذانیں گونج رہی ہیں ۔سنکیانگ کے مسلمان بھی بیدار ہو گئے ۔انہوں نے بھی غیر کی بالا دستی کا جو آ اتار پھینکا ہے ۔ بھارت نے پاکستان کوتو ڑا۔۔۔ پاکستان تو اللہ تعالی کے فضل وکرم سے پھر جڑ گیا۔ پھیل گیا مگر بھارت ٹوٹ گیا۔ ۔ ۔اب انشاءاللہ کبھی نہیں جڑے گا۔امر یکہ بھی ایشیا وافریقہ سے اپنی بساط سیاست لینے پر مجبور کر دیا گیا۔سرزمین امر یکہ و یورپ پر بھی نوراسلام چھا گیا۔ برطانیہ اور امریکہ نے اسرائیل کی شکل میں جو ناسور اسلامی دنیا کو دیا تھا ایک کا میاب آپریشن کے ذریعے نکال کر واپس انہی کی جھولی میں پھینک دیا گیا ہے ۔ بھارت ، فلپائن اور اریٹریا کے مسلمان بھی سکھ کا سانس لینے لگے ۔انشاءاللہ تعالی ریاست ہائے متحدہ اسلامیہ قائم ہو گی اور نفاذ اسلام ہوکر رہے گا اور اس کا سہرا پاکستان کے سر بندھے گا۔

ان الله على كل شيء قدير
ترجمہ: بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

میں دیکھ رہاہوں بعالم خوش وحواس د کھر ہا ہوں انشا اللہ تعالی دنیا بھی دیکھ لے گی ۔لیکن کب، یہ تو اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔ انتظار کرامت مسلمہ کا خیر خواہ بن بکھیر مت اکٹھا کر ، اللہ کے بندوں رجال الغیب کے ساتھ تیرا یہی تعاون ہے۔ قارئین کرام حضرت جی کی حال سفر کتاب 1987 ء میں لکھی گئی تمام دنیا نے دیکھا کہ روس افغانستان میں 1979 ء میں داخل ہوا اور 1989 ء میں روس کا آخری سپای شکست کھا کر ذلیل ورسوا ہو کر افغانستان سے نکل گیا اور اس طرح
میرے شیخ المکرم عارف وقت پروفیسر حضرت باغ حسین کمال کی پیشن گوئی حرف بحرف سچ ثابت ہوئی ۔ بلاشبہ یہ میرے حضرت جی کی ایسی کرامت ہے جس پہ امت مسلمہ بجاطور پرخفر کرسکتی ہے۔

حضرت جی رحمتہ اللہ علیہ حال سفر میں لکھتے ہیں کہ بارگاہ رسالت ﷺ سے حکم ۔۔۔ صادر فرمایا گیا کہ اپنی روحانی

کیفیات و احوال اور تصوف وسلوک کے بارے میں ایک مختصری کتاب قلمبند کروں جو سائلین و کے لئے مشعل راہ ہو۔۔۔مزید فرمایا ۔۔۔ دین کے اہم ترین شعبے’’احسان‘‘ کوایک بڑاطبقہ نظر
انداز کر چکا ہے ۔۔۔ انکار کے فی مقابلے میں اظہار بھی پوری قوت سے اسلھا ہے۔۔۔تینا اپنے احوال کا بھی تذکر کرو تاکہ لوگوں کو اس کی برکات کا احساس ہو اور انہیں اس راہ پر چلنے کا شوق نصیب ہو ۔۔۔ عرض کیا کتاب کا نام کیا رکھوں؟ ۔ ۔ ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ بول اٹھے ۔۔۔ حال سفر‘ ۔۔۔ میں غور ہی کر رہا تھا کہ حضورﷺ نے فرمایا ۔۔۔
از فرش تا عرش“ بھی نیچے لکھواد بنا تا کہ معنویت پیدا ہوۓ ۔۔۔

الحمد للہ رب العالمین ۔

میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالی کے فضل اور آپﷺ – کے کرم سے نا چیز کوانعامات سے اس قدر مالا مال فرمایا گیا ہے کہ اگر میں ظاہر کر دوں تو لوگ یقین کرنے کی بجاۓ مذاق کرنا شروع کر دیں گے۔۔ آپﷺ نے اوان

فرمایا۔۔’’سنوا قرآن کریم کی آیت

إن الـلـه ومـلـكـة يصلون على النبي يايها الذين آمنوا

صلو عليه وسلموا تسليماه

بیشک اللہ اور اس کے فرشتے آپﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو اے ایمان والو ! تم بھی

آپ ﷺ پر دروداورخوب سلام بھیجو۔

ہرکوئی ہر دور میں پڑھتار ہا ہے ۔حدیث پاک میں بھی موجود ہے کہ عن ابن مسعود قال ، قال رسول الله صلى الله عليه

و آله وسلم اولى الناس بي يوم القيمة اكثر هم على صلوة 0

حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما : قیامت والے دن وہ شخص میرے سب سے زیادہ قریب ہوگا جس نے ( دنیا میں

مجھ پر سب سے زیادہ درودشریف پڑھا ہوگا۔۔‘‘

مگر اس حکم پر کما حقہ توجہ نہیں دی گئی۔ تمام عبادہ زہاد نے نوافل تلاوت اور تسبیحات پر توجہ مرکوز رکھی ۔ انہوں نے درود پر وہ توجہ نہ دی جس کا تقاضالہ کریم نے کیا تھا۔۔۔مگر میری امت میں تم واحد شخص ہو جس نے اس کی دعا کی تو گویا اللہ کریم کی آرزو طلب کر لی ۔ لہذا اس نے تمہیں درود کی ذاتی نسبت عطا فرمادی۔ تمہاری یہ معصوم اور پاکیز ہ اداودعا اللہ کریم کواتنی پسند آئی کہ تمہیں بتدریج ذوق وشوق اور ہمت وحوصلہ سے نوازتے چلے گئے ۔۔۔ تم نے امت محمدیہ ﷺ کے کثرت سے درود پڑھنے والے پہلے سواشخاص میں شامل ہونے کی دعا کی تھی۔ مگر اللہ کریم نے اس لحاظ سے تمہیں ساری امت میں اؤل کر دیا ۔سو درودشرف کی تعداد کے لحاظ سے کوئی بھی تمہارامثیل نہیں ۔ اس درودشریف کی وجہ برکت سے میں نے اور ایصال ثواب کی وجہ سے دیگر انبیاء کرام علیہ السلام ، خلفاء اشدین رضی اللہ عنہم ،حسنین کریمین رضی اللہ عنہما، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاء کرام رحمتہ ے اپنا بیٹا بنایا ہے ۔ اور اولیاء کرام رحمتہ اللہ علیہ میں میری ذاتی توجہ جتنی بھی ہے وہ اور کسی کو نصیب نہیں ہوئی ، اور اس کی وجہ سے اللہ تعالی کام تیرے شامل حال ہور ہا ہے ۔ حضرت جی اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ میری روحانی ترقی دیکھ کر اولیائےِ برزخ افسوس کر رہے ہیں کہ ہماری نظر درودشریف پہ کیوں نہ پڑی جبکہ اس آدمی کو یہ کیسا نسخہ تقریب ہاتھ آیا۔

 

آپ ساتھیوں سے فرماتے تھے کہ درودشریف سنوار کر پڑھا کریں ۔

اکثر لوگ تیز پڑھنے میں حروف کھا جاتے ہیں ۔ ادائیگی درست نہ ہونے سے یہ درود

شریف خدمت اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یوں پیش ہوتا ہے جیسے مرجاۓ ہوۓ پھول ۔آہستہ پڑھنے سے تعداد میں کمی آئے گی لیکن پریشانی کی بات نہیں ۔

حضرت جی رحمتہ اللہ علیہ  فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درودشریف پڑھو میرے خیال میں خوبصورت ترین تحفہ جوامتی بارگاہ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں پیش کرسکتا ہے وہ درودشریف ہی ہے: آپ رحمتہ اللہ علیہ  یھی فرماتے کہ جہاں درودشریف پڑھا جا تا ہے وہاں حضور صلی

اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل بیت کرام وصحا بہ کرام کے ہمراہ تشریف لے جاتے رہتے ہیں ۔اگر کائنات پر غور کریں تو سمندر میں موجود اجزاء کی تعداد 92 ہے فضا میں

موجوداجزا بھی 92 ہیں ۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ کے اسم مبارک محد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عد دبھی 92 ہی میں اب اس میں کسی قسم کا کوئی شک باقی نہیں رو جا تا کہ یہ کائنات ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کیلئے بنائی گئی ہے۔

اعدادکی بھی اپنی حکمت ہے۔آنحضور ﷺ کے اسم مبارک محمد

کے 92 عدد ہیں۔ 2 + 9 = 11 بنتے ہیں ۔ آنحضور ﷺ کی خاص فضیلت رسالت ہے۔ رسالت کے عدد 8 ہیں ۔ اگر 11 میں 8 جمع کر میں تو 19 اور 19 *

1 + 9 = 10 بنتا ہے ۔ درودشریف کے بھی عدد 10 ہیں ۔ ( 46 )( 6 + 4 = 10 ) عد پیشر بھی 10 ہیں ۔اسی طر ح 10 کے عدد میں بڑی حکمت ہے۔

حضرت جی فرماتے تھے کہ سارے مسلمان اسم ذات کے ذاکر ہو جائیں

آپ فرماتے تھے کہ میرا شوق تو یہ ہے کہ سارے مسلمان اسم ذات کے

ذاکر ہو جائیں ۔ حضرت جی رحمتہ اللہ علیہ  فرماتے تھے کہ آپ سب ذمہ داری محسوس کر یں ۔ یہ ہیں کہ موڈ آ گیا تو ذکر کر لیا نہیں آیا تو نہیں کیا۔ گھر والوں کوزبر دستی ذکر کروائیں ۔ مجھ سے محبت ہے اور نبی کریم ﷺ سے محبت ہے تو لوگوں کو دعوت ذکر دیں ۔ ہم نے اس دعوت کو پھیلا نا ہے ۔ میری بیعت نہ کریں ۔ مجھے کوئی شوق نہیں کہ لاکھوں میری بیعت کریں۔ میرا ایک ہی شوق ہے کہ اس دعوت کو پھیلا دیا جاۓ ۔ اس لئے ماں باپ بہن بھائیوں اور بچوں کو ز بر دستی بیٹھ کر ذکر کرائیں ۔ کوئی مانے نہ مانے سب کو بتاؤ ۔ لوگ مذاق اڑاتے ہیں تو پرواہ نہ کر یں ۔ اللہ کے نام کا ذکر کرئیں ۔ ہرایک کو لطیفہ لب پہ ذکر کر نا بتائیں کیونکہ اگر ہم گھروں میں اسلام ان ہی کر سکتے تو نفاذ اسلام اور اتحاد اسلام کیسے ہوگا۔ نفاذ اسلام کی منزل تک پہنچنے کیلئے بڑی محنت کی ضرورت ہے۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ  فرماتے تھے کہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے صاحب سلسلہ کرنا تھا اس لئے مجھے ذکرخفی قلبی اسم ذات اللہ کا ذکر عطافرمایا۔

حضرت بی فرماتے تھے کہ جس نے ایک مرتبہ ہماری محفل میں ذکر کر لیا اس کے دل میں ہم نے ذکر کا بیج بود یا جوانشاءاللہ سازگار ماحول میں بچھوٹ پڑے گا۔

آپ میرے سفیر ہیں اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفیر ہوں ۔ ہمارامشن لوگوں تک ذکر کی دولت پہنچانا ہے تا کہ انہیں مرتے وقت کلمہ نصیب ہو جاۓ ۔ آپ فرماتے تھے کہ جب میں ذاکر کے دل پر توجہ کر کے اللہ کی پہلی ضرب لگا تا ہوں تو اس کی روحانی شکل اگر خراب ہوتو درست ہو جاتی ہے ۔ دوسری ضرب پہ دل پہ لگی کثافت دھل جاتی ہے تیسری ضرب پر دل ذکر کر نے کا اہل ہو۔

Faqir Prof Bagh Hussain Kamal

جا تا ہے۔ ساتھیو! آپ سے یہ کہنا ہے کہ ہر انسان کی زندگی میں ایک موڑ آ تا ہے ۔ اسی طرح میری زندگی میں بھی ایک موڑ آیا۔ وہ یہ کہ بالکل غیر متوقع طور پر ، اچانک ہی مجھے عزیز ترین اعزاز سے نوازا گیا۔ میرے دل کے کسی گوشے میں تصور بھی نہ تھا کہ یوں ہو جاۓ گا۔ خیال میں بھی کبھی ایسانہیں سوچا تھا کہ میں کسی سلسلے کا بانی ہوں گا ، مجھے کوئی سلسلہ عطا ہو گا۔ تاریخ تصوف اٹھالیں ،مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ صاحب سلسلہ صرف گنتی کے چندلوگ ہیں اور ان کے سلسلے سالہا سال سے پہل رہے ہیں ۔ صاحب سلسلہ ہونا بہت بڑی بات ہے، بہت بڑا انعام ہے، اعزاز ہے۔

برصغیر میں چار بڑے سلسلے قادریہ چشتیہ ,نقشبندیہ اور سہروردیہ ہوئے ہیں۔ان سلاسل سے وابستہ لوگ پورے برصغیر میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ ان حالات میں آناَ فاناَ غیر متوقع طور پر جب مجھے ہفت اقلیم کا سر برا مقر کردیا گیا ۔ ایک نے سلسلے کا سربراہ بنادیا گیا تو آپ میری کیفیت نہیں سمجھ سکتے ۔

بڑی عجیب رفت کی کیفیت مجھ پر طاری تھی۔ یہ میری زندگی کا اور آپ کے سلسلے کا منفرد واقعہ ہے۔ اور یہ واقعہ 8 اپریل 1984 کوپیش آیا، اس روز نبی کریم ﷺ نے اس فقیر کو ایک اہم ترین ذمہ داری سونپی اور ایک منصب خاص پر فائز فرمایا۔ کوئی بھی ولی اللہ ہو۔ اس کی زندگی میں خاص مواقع آتے ہیں اور اس دن کو خاص اہمیت دیتے ہیں ۔ میرے سلسلے میں اٹھ اپریل کادن ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔
سلسلہ اویسیہ کمالیہ کے بارے میں حضرت جی رحمتہ اللہ علیہ  فرماتے تھے کہ جس طرح گیارہ سلاسل ولایت کوضم کر کےایک نسبت اویسہ کمالیہ بنائی گئی ہے۔ اسی طرح انبیاء کرام کے تمام اوراد وظائف کی نسبتیں اس درودشریف میں ضم کر دی گئی ہیں ۔ اس لئے پوری ہمت اور پورازور دورد شریف پہ صرف کرتا ہے۔