تحریر: سید حسنات احمد کمال

سید میراں شاہ صاحب 18 ویں صدی کی آخری دہائی میں دینہ کی پرنوربستی چک عبد الخالق میں تولد ہوۓ والد ین نے جد امجد سید عبدالخالق شاہ کے دادا حضور کے نام پر سید میراں شاہ نام رکھا۔ آپ مادر پدر ولی تھے والدہ بچپن میں وصال فرماگئی تھیں والد پیرسید فضل احمد شاہ نے پرورش کی ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پیرسید میراں شاہ جب چھوٹے تھے اور والد کے ساتھ ہی سویا کرتے تھے تو ایک رات انکے والد پیر فضل احمد شاہ نے انہیں نیند سے بیدار کر تے ہوۓ کہا کہ میراں شاہ اٹھورب تعالی مہربان ہے جو مانگنا ہے۔

اس سے مانگ لو دراصل وہ ورات لیلۃ القدرتھی کائنات کی ہر چیز اس رات اپنے خالق کے حضور سجدہ ریز تھی ، پیر سید میراں شاہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے فورا دعا کے لئے ہاتھ اٹھاۓ اور عرض کی یا باری تعالی تیراہی ہے سارا کچھ تو ہی عطا کرتا ہے مجھے میرے سلسلے کی فیض یابی عطا کر دے تا کہ تیری مخلوق استفاد کرتی رہے ، قبولیت کے اس لمحے دعا قبول ہوگئی یہی وجہ ہے کہ آج تک پاکستان اور آزاد کشمیر سے سینکڑوں ہزاروں لوگ انکے مزار پر حاضری دیتے ہیں اور فیض پاتے ہیں بیرون ملک بھی اکے عقیدت مندوں کی خاصی تعداد ہے آپ کی لاٹھی میں رب عظیم نے یہ کرامت رکھ دی تھی کہ وہ جس کو پڑتی تھی اس کے وارے نیارے ہو جاتے تھے اگر کسی بانج خاتون کو وہ لاٹھی مارتے تو وہ صاحب اولاد ہو جایا کرتی اور اگر کسی کی بھینس دودھ نہیں دیا کرتی تو حضرت میراں شاہ صاحب کی لاٹھی اللہ کے کرم سے دوگنا تگنا سے بھی زیادہ  دودھ لیا جایا کرتا تھا‘‘ خشک پودے ہرے ہو جایا کرتے وہ سخی اس قدر تھے کہ اپنے پاس آنے والے غریب غربا کو واپسی کا کرایہ اور گھر کے لئے خرچ دے کر بھیجا کرتے تھے ان کے پاس وہ رقم کہاں سے آتی تھی یہ ایک ایسی کرامت ہے جس سے ان کے مزار پر آج بھی خالی جھولیوں کے ساتھ آنے والے جھولیاں بھر کے لوٹتے ہیں عملیات کا شکار مختلف روحانی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا خلق خدا اللہ پاک کے کرم اور سید میراں شاہ صاحب کی دعا سے فیض یاب ہوا کرتےوہ چشمہ فیض آج بھی رواں دواں ہے۔

پیر سید مبراں شاہ سیالکوٹ کے پیر جماعت علی شاہ امیر ملت سے سلسلہ نقشبند یہ میں بیعت تھے اس حوالے سے پیر جماعت علی شاہ صاحب نے اپنے مریدوں سے فرما رکھا تھا کہ جو کوئی ان کے آستانہ عالیہ تک نہیں پہنچ پا تا وہ چک عبد الخالق میں سید میراں شاہ کے پاس چلا جایا کرے ایک دفعہ سید میراں شاہ صاحب نے حج کے ارادے سے چھ روپے جمع کئے مگر حج پر نہ جا سکے کہ ان روپوں سے علاقے میں دوغریب لڑکیوں کی شادی کرادی ،لیکن حج کے موقع پر ان کے ایک مرید حضرت صاحب کو میدان عرفات میں دیکھا جسے کہ رہے تھے کہ فکر نہ کرنا تمہارے گھر میں سب خریت ہے ۔ اس طرح سید میراں شاہ نے اپنے مریدکو چشم دید گواہ بھی بنالیا اور خوداللہ پاک کے کرم سے روحانی طور سے حج کی سعادت بھی حاصل کرلی۔
حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ انہوں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ اسلام کے لئے گھر کی چوکھٹ بدلنے کا پیغام چھوڑا تھا جس پرعمل کرتے ہوۓ حضرت اسماعیل علیہ اسلام نے اپنی زوجہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی ، اس طرح پیرسید میراں شاہ صاحب کے والد گرامی پرفضل احمد شاہ کوبھی بہوکی کوئی بات اچھی نہ لگی تو انہوں نے بیٹے سے اسے آزاد کرنے کو کہا جس پر عمل کرتے ہوۓ۔

Hazra Pir Syed Miran Shah

سید میراں شاہ اپنی بیوی سے علیحدہ ہو گئے اس پر فضل احمد شاہ نے اپنے بیٹے سے کہاتھا کہ سید میراں “تو اوتر ہوسیں مگر کئی سوتراں توں ودھ کے ہوسیں” یعنی اے میراں شاہ توبے اولاد تو ہوگا مگرکئی اولاد والوں سے تیرا مرتبہ اور مقام بلند اور بڑھ کر ہو گا یہی وجہ ہے کہ آج بھی آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے آپ کے وصال کے بعد آپ کے مزار سے ملحقہ سجد ہے جس میں با قاعدگی سے نماز پنجگانہ کے علاوہ جمعہ کی نماز بھی ہوتی ہے اس مسجد میں درود شریف کا ورلڈ بینک قائم ہے جہاں سے دنیا بھر سے ہرسوموار کو درود پاک جمع ہوتارہتا ہے اسی مسجد سے ملحقہ خانقاہ دارلحسنات بھی قائم ہے جہاں صبح وشام بڑی باقاعدگی سے ذکر خفی اورقلبی جاری رہتا ہے سالانہ عرس کے علاوہ ماہانہ دیگر 9 محافل ذکر درود پاک بھی ہوتی ہیں اربوں کھربوں درود پاک نبی آخرالر مان صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے جمع ہوتا رہتا ہے اور پڑھا بھی جا تا ہے ۔

تمہیں خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جائیگا تم لوگ بامراد جایا کرو گے ، یہی وجہ ہے کہ دارالحسنات سے ملحقہ اس مزار پر آج بھی عقیدت مندوں کو دعا کے لئے ہاتھ اٹھاۓ دیکھا جا سکتا ہے قرآن پڑ ھئے جارہے ہوتے ہیں درود پاک کا ورد ہوتا رہتا ہے یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ پیر سید میراں شاہ کے والد گرامی پیرفضل احمد شاہ صاحب کے وہ الفاظ رب تعالی نے شرف قبولیت سے سرفراز کر دیئے تھے کہ “میراں شاہ تو اوتر اتے ہوسیں پر کئی سوتریاں توں ودھ کے یاد رہے کہ پیر سید فضل احمد شاہ جو میرے پردادہ تھے وہی شخصیت ہیں جنگی بیری کا ذکر ممتاز قلمکار اور ہمارے چیک عبدالخالق کی قلمی اورعلمی آبروسید میرجعفری نے اپنے روزنامچوں میں جابجا کیا ہے ۔

ہمارے دادا سید مستان شاہ صاحب کے بڑے بھائی پیر سید میراں شاہ کا وصال 14 رمضان 1407 ه مطابق 13 مئی بروز بدھ 1987 ء کو ہوا تھا آپ کی کرامتوں کا ذکر چک عبد الخالق میں زبان زد عام ہے جن بانجھ جوڑوں کو اولاد کی خوشخبری دیا کرتے تھے ان بچوں کے نام بھی خودرکھا کرتے تھے جن میں انکا پسند یدہ نام اللہ دتہ ہوتا تھا۔

مجھے بھی خواب میں بیٹے کی بشارت دی تھی جسے اللہ پاک نے قبول کیا اور بیٹا عطا کر دیا، ایک دفعہ گھوڑے پر کہیں جارہے تھے تو گاؤں میں کسی جادوگر نے غل مل کی وجہ سے آگ لگا رکھی تھی آپ نے اپنی لاٹھی سے وہ آگ بجھا دی تو جادوگر نے دوبار آگ لگانے کی کوشش کی کافی چھتر منتر کئے مگر حضرت سید میراں شاہ نے اسے کہا کہ تم نے لگائی تھی لگائی میں نے اللہ کے فضل سے بجھا دی ہے لہذا اب تم آگ لگا کے دکھاؤ تو مانوں مگر وہ جادوگر بھاگ گیا۔

بابا جی سید میراں شاہ خداترس متوکل اور صاحب کشف بزرگ تھے وہ بظاہر سب کچھ دیکھتے ہوۓ اور جانتے ہوۓ بھی عجز اور انکساری سے کام لیا کرتے تھے اکثروبیشتر خود کودنیا والوں سے چھپاۓ رکھتے تھے کے اس عمل اور بے نیازی کی وجہ سے بعض لوگ انہیں سادہ سمجھتے تھے اسی طرح ایک دفعہ کسی عدالت میں انکی گواہی کی ضرورت اس لئے پڑگئی کہ بابا جی علاقے میں صادق اور امین سمجھے جاتے تھے خیال تھا کہ بابا جی اگر گواہی دے دیں تو وہ مقد مہ جیت جائینگے اس سلسلے میں اسلی حقائق بتاۓ بغیر بابا جی کو شہادت کے لئے اس بنا پرتیار کرلیا گیا کہ ان لوگوں نے خود کو مظلوم ظاہر کیا تھا مگر بابا جی کوانکی اصلیت کاعلم تھا یہی وجہ ہے کہ جب عدالت میں گواہی کے وقت بابا جی پیرسید میراں شاہ صاحب سے منصف نے پوچھا کہ بابا جی آپ وقوعہ کے وقت وہاں موجود تھے تو بابا جی نے کہا جی نہیں میں اس روز اپنے مریدوں کی دعوت پر ٹالا جوگیاں کے مضافاتی گاوں میں گیا ہوا تھا ظاہر ہے وہ فریق مقد مہ ہار گیا بعد میں باباجی سے اس نے کیا ۔ سچ بول کے آپ کو کیا مل گیا تو بابا جی سرکار نے کہا تھا کہ میں نے اپنا ایمان بچا لیا ہے اور یہ گھاٹے کا سودانہیں ہے ۔

Hazra Pir Syed Miran Shah