20 مارچ 1992 ء جمعۃ المبارک

ساتھیو! ذکر سے پہلے چند باتیں ۔۔۔ خانقاہ میں اور مدرسے میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ مدرسے میں تقر یہ ہوتی ہے اور خانقاہ میں خاموشی ہوتی ہے ۔ وہاں الفاظ اور عبارت آرائی ہوتی ہے اور یہاں پر ذوق اور حال کی کیفیت ہوتی ہے ۔ اس لئے یہاں پر تقریروں کا سلسلہ تو نہیں ہوتا ۔ وقتا فوقتا کچھ باتیں جو میرے مشاہدے میں آتی ہیں تجربے کے طور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آپ کی رہنمائی کیلئے بیان کر دی جاتی ہیں ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ چونکہ آپ میرے ساتھ منسلک ہیں اور آپ کی روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ ایسی باتیں جو اس روحانی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہیں ۔۔۔۔ان کی نشاندہی بھی کر نا ضروری ہوتا ہے ۔ اولیاء کرام کے مزاروں پر جانا بہت ہی بابرکت ہوا کرتا ہے ۔مگر اس کے بھی آداب ہیں ۔ یہ جو بات میں آپ کو بتانے لگا ہوں وہ اس لئے کہ ایک ساتھی پاکپتن شریف میں حضرت بابا فرید کی حاضری دینے کیلئے گیا تو اس نے دیکھا کہ لوگ قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ ر ہے ہیں ،قبر کے سامنے سجد ے کرر ہے ہیں اور قبر کے اردگر دطواف کر ر ہے ہیں ۔

تو بھائی ! ٹھیک ہے اولیاء کرام کے ساتھ عقیدت ہوا کرتی ہے اور ہم کو بھی ہے ۔ مگر یہ جو چیز ہے یہ بڑی ناپسندیدہ ہے اور اسلام میں کوئی بھی مسلک

اس کی حمایت نہیں کر سکتا ۔ چا ہے وہ دیو بندی ہو، چاہے بر بریلوی اور چاہےالاحد یث ہوں ۔ یہ میں تنبیہ کے طورنہیں بلکہ ہدایت کے طور پر عرض کر رہا ہوں کہ جب

بھی آپ کسی بزرگ کے مزار پر جائیں تو وہاں پر آپ نے جو کچھ بھی پڑھنا ہے ۔ بہتر ہے قرآن کریم کی تلاوت کریں تسبیحات پڑھیں ، ذکر کریں ، درودشریف پڑھیں کلمہ شریف پڑھیں ۔ یہ پڑھنے کے بعد آپ یوں ایصال ثواب کریں کہ

یا اللہ ! یہ جو کچھ میں نے کلام پاک پڑھا ہے ، درودشریف پڑھا ہے تیجات پڑھی میں اس کا ثواب رسول اکرم اور ان کے طفیل تمام انبیاء کرام ، ابلیت اطہار صحابہ کرام، تابعین تبع تابعین ، اولیا کرام ، بزرگان دین اوراس بزرگ کی روح کو ایصال ثواب کر تے ہیں ۔‘‘ اب جو کچھ آپ کے مسائل ہیں ، پر یشانیاں ہیں اور دعا کرانی ہے تو اس کیلئے یوں کہیں کہ ’’ یا اللہ ! آپ کے اس برگزیدہ ، پیارے اور مقبول بندے کے طفیل میرا یہ مسلیل فرمادے ۔‘‘

تو یہ طریقہ جائز ہے ۔لیکن اگر آپ وہاں پہ طواف کر یں گے یا ایسی — غیر شرعی حرکتیں کر یں گے ۔تو آپ بزعم خولیش اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں ۔ مگر وہ جو بزرگ ہیں وہ آپ سے بھی خوش نہیں ہوں گے ۔ اسی طرح آپ میں سے کچھ ساتھی جب مجھ سے ملتے ہیں تو بعض اوقات میرے پاؤں کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں ، گھٹنوں کو ہاتھ لاتے ہیں ۔ بھالی لینین جائیں مجھے اس سے بھی خوشی نہیں ہوتی ، میں بیزار ہوتا ہوں ۔ اس لئے جب آپ میرے ساتھ مصافحہ کرتے ہیں تو اس طرح کر میں جیسے آپ ایک دوسرے سے کرتے ہیں ۔ بالکل کورنش بجالا نا اور اس طرح نیچے جا نا ، اس کا نہ مجھے کچھ فائدہ ہے اور نہ ہی آپ کو کچھ فائدہ ہے ۔اگر آپ میری تعظیم کرتے ہیں ، مجھ سے محبت کرتے ہیں تو جب آپ مجھ سے مصافحہ کرتے ہیں تو بس کافی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ آپ نے محبت کا اظہار کرنا ہے تو آپ ہاتھ چوم لیں ۔ اس سے زیادہ پڑھ نہیں ۔ مجھے بہت زیادہ کوفت ہوتی ہے۔ میں نے آپ سے گزارش کی تھی کہ میرا اور میرے سلسلے کا امتیازی نشان در و دشریف ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میں سے ہر آ دی کم از کم ایک ہزار مرتبہ روزانہ درودشریف پڑھے ۔ اور جونص ایک ہزار مرتبہ درودشریف پڑھنے کیلئے وقت نہیں نکال سکتا تو میں تجھتا ہوں کہ اس راہ سلوک پر قدم رکھنے کی ضرورت نہیں

ہے۔ بھئی ! کتاب آپ نے پڑھی ہے ،میری ساتھیوں سے بھی آپ نے سنا ہو گا ۔ آپ بھی میرے ساتھی ہیں ، آپ میرے پاس اس لئے آتے ہیں ناں کہ میں آپ کی تربیت کر تا ہوار وحانی طور پر کعبہ شریف لے جاؤں ، در باراقدس لے جاؤں ۔
حضور نبی کریم کے ساتھ محبت اور عقیدت کا میرے نزدیک ایک ہی معیار ہے ، ایک

ہی پیمانہ ہے کہ کوئی شخص کتنادرودشریف پڑھتا ہے ۔ اب اس محفل میں ایسے بھی لوگ ہیں ،ساتھی ہیں جن کا ایک لاکھ روزانہ کا درودشریف ہے ۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں۔ جن کا پچاس ہزار ، چالیس ہزا،بیس ہزار بھی روزانہ پڑھتے ہیں اور جو مخص سومر تبہ بھی نہیں پڑھتا اندازہ کر لیں ۔ یہاں پر تو خواہش ہوتی ہے کہ میں کروڑ پتی بنوں ، میرے کار خانے ہوں ، میرے بنگلے ہو،یہ ہو، وہ ہو ۔ ۔ ۔ اور زندگی وہ ہے جس کے بارے میں آپ کو اور مجھے کوئی علم نہیں ہے کہ یہاں سے آپ کو یا مجھ کو اٹھنا بھی نصیب ہو گا کے نہیں ۔اس دنیا کیلئے اتنی کھیچل کرتے ہیں ، اتنی محنت کرتے ہیں تو جہاں پہ ہمیشہ رہنا ہے ۔۔۔ وہاں کیلئے بھی تو کچھ کام کرنا ہے ناں ۔ وہاں پر بھی ہماری کچھ ضروریات ہیں ۔ یہاں پر ہر آدی ریس کرتا ہے کہ فلاں کے پاس سکوٹر ہے ، میرے پاس بھی ہو نا چا ہیے ۔ فلاں کے پاس کار آ گئی ہے ، میرے پاس بھی ہونی چاہے تو،بھئی ۔ ۔ ۔ ۔ وہاں پر بھی کاریں ہیں وہاں پر بھی بنگے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ تو جوشخص یہاں پر ایک لاکھ روزانہ درود شریف پڑ ھ ر ہا ہے ۔ اس کے مقام کا آپ انداز نہیں کر سکتے ۔ فرشتے بھی ان پر رشک کر تے ہیں ۔ یہ معمولی بات نہیں ہے ۔ میں نے کتاب لکھی۔ کتاب مختلف لوگوں کے پاس گئی ، جو سعادت مند روئیں تھیں ، انھوں نے قبول کیا کہ شخص ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے باتیں بنائیں ۔مذاق اڑایا۔اگلے دن ہمارے ملک کا ایک معیاری رسالہ’ حکایت‘‘ جس میں ایک شخص روحانیت پر کالم لکھتا ہے ۔ اتفاق سے وہ میرا پرانا شاعر دوست تھا۔ اس کی بھی کایہ پلٹی اورکسی بزرگ کے ساتھ وابستہ ہوا۔ وہ روحانی کالم لکھا کر تا ہے ۔ تو کسی ساتھی نے مجھے بتایا کہ یہ ایک کالم آیا ہے۔ تو میں نے سوچا کہ پرانادوست ہے ممکن ہے اس کا فائد ہ ہو جاۓ ۔ تو میں نے کتاب ’’حال سفر‘‘ بھیج دی اور اس نے اپنے بعد کے پرچے میں میرے اس کتاب پر تبصرہ کیا۔ اس میں اس نے دو باتیں کیں ۔ وہ کہتا ہے کہ جو کچھ کمال صاحب نے اس کتاب میں لکھا ہے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عہدے کے لحاظ سے اس وقت دنیا میں ان کا مقام کا کوئی نہیں ہے ۔ دوسری بات ۔۔۔ آگے چل کر کہتا ہے کہ یہ جو منصب انھوں نے بیان کیئے ہیں ، یہ اتنی اونچی اڑان ہے ، اتنااونچا مقام ہے کہ اس کیلئے تو بزرگوں نے سالہا سال ریاضتیں کیں محنتیں کیں اور زندگیاں کھپادیں ۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس شخص کو بیٹھے بٹھائے یہ مقام کیسے حاصل ہو گیا۔ آگے وہ کہتا ہے کہ کمال صاحب نے یہ دعوی کیا ہے کہ میرا فلاں تاریخ تک 37 کروڑ درود شریف پورا ہو چکا ہے ۔ اور وہ کہتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ حق ہے ، درست ہے ۔ اس لئے کہ کوئی بھی شخص اپنی عاقبت خراب نہیں کر نا چاہتا۔ بزرگوں کا یہ مقولہ ہے کہ’’بامحمد ہوشیار‘ کہ حضور اکرم کا مقام ایا ہے کہ ان کے سامنے آدمی کا بڑے ادب اورعقیدت کے ساتھ تعلق ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی کے ساتھ کسی رنگ میں شاعر کچھ سے کچھ انداز اپنا لیتے ہیں ۔لیکن حضور اکرم کے ساتھ بڑے ادب کا تقاضا ہوتا ہے ۔قرآن کریم میں یہاں تک آ تا ہے کہ تم ان (ﷺ ) کی آواز سے اپنی اواز اونچی نہ کرو ان کو اس طرح نه بلا ؤ جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ہی غارت ہوجائیں اور تمہیں پتہ ہی نہ ہو ۔
وہ کہتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے اس دعویٰ پر بڑ اغوغا مچ سکتا ہے مگر سچی بات سے کہ اس کے استدلال نے ہم میں سکت ہی نہیں چوڑی کہ ہم مخالفت کرے اس لئے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے یہ کتاب حضور اکرم کے مطابق اور ان کی رہنمائی میں لکھی ہے ۔ تو پھروہ کہتا ہے کہ میرا یہ بھی خیال ہے کہ اس روئے زمین پر کسی شخص نے شاید ہی اتنا درودشریف پڑ ھا ہو۔ اوراگر نیک ہے تو پھر یہ جومنازل ہیں قیومیت ہے ،قطب وحدت ہے ،صدیقیت ہے۔ عماریت ہے تو پھر یہ کوئی مقام نہیں رکھتے ۔ قدرت ایسے شخص کیلے منصوبوں کا تاج لیئے پھرتی ہے۔
تو بھائی ! میری آپ سے دوبارہ یہ گزارش ہے کہ آپ میں سے لوگ جو ہیں ۔ وہ میری بیعت تو کر چکے ہیں ۔ٹھیک ہے لیکن اگر آپ پرائمری میں داخل ہوتے ہیں اور آپ کے ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ ایم ۔اے کرے، پی ۔ایچ ۔ڈی کرے، ڈاکٹر بنے اور انجینئر ہئے ۔۔۔۔تو یہ بھی ایک سکول ہے جس میں آپ نے داخلہ لیا ہے ۔ یہاں آپ کو روحانی طور پر نرسری سے لے کر پی ۔ایچ ۔ڈی تک کی سند دی جاتی ہے ۔ اب اگر آپ پرائمری میں ہی رہ جاتے ہیں تو بڑے ہی نالائق ہیں ، کچھ نہ پڑھ آپ کو ہمت کر نا چا ہیے اور اس کیلئے میرے پاس جو معیار ہے وہ آپ جانتے ہیں ۔ اس سے پہلے میں یہ نہیں دیکھا تھا کہ کسی نے داڑھی رکھی ہوئی ہے یانہیں ۔صرف یہ دیکھتا تھا کہ اب اس نے پانچ وقت نماز شرو کر دی ہے دووقت ذکر تو کر رہا ہے تو میں فوراََ ساتوں لطائف طے کراد یتا تھا۔ اب میں سمجھتا ہوں کے یہ چیزاسی ہے کہ ہر کوئی اس کا اہل نہیں ہوتا۔ اس راہ میں آپ نے بزرگان دین کی مختلف۔ روایتیں کہانیاں اور تاریخیں پڑھی ہیں کہ ان پر بڑے اضطراب کے زمانے آتے تھے۔جنگوں میں چلے جاتے تھے، بال بچوں کو چھوڑ کر اور وہاں ریاضتیں کرتے تھے ۔

اسی طرح اس مقام کے حصول کیلئے آپ کو بھی محنت کر نا چا ہے ۔لیکن آپ کی تو نمازیں بھی پوری نہیں ۔ ظاہر ہے جب آپ کی نماز ہی پوری نہیں ہوں گی آپ کے اعمال ٹھیک نہیں ہوں گے ، معاملات بھی درست نہیں ہوں گے ۔۔۔ اور میں آپ کو سبق دے دوں گا ۔ تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا کہ۔۔۔ آپ سے بہت ہی رعائیت ہوگئی تو آپ کے جسم پر کچھ نہ کچھ تو تکلیف آۓ گی ۔ اس طرح آپ کے مالی حالات کے ذریعے تکلیف آسکتی ہے یا کوئی اور آپ کو پریشانی لاحق ہوسکتی ہے ۔ اب مصیبت یہ ہے کہ جو کوئی میرے پاس آ تا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے حضرت صاحب تو بہت او نچی ہستی ہیں ۔ چوکر یں گے اور سارے مسائل حل ہو جائیں گے ۔ تو یہاں پر مسئلہ بنتا ہے ۔ بھئی ! آپ کے جودنیاوی مسائل ہیں ، ان کیلئے جب کوئی آدمی مجھے خط لکھتا ہے یا خود آ کے مجھے بتا تا ہے تو میں دعا کرتا ہوں ۔ اب اللہ تعالی کی اپنی مرضی اور منشاء ہے کہ اس بات کو قبول فرمالے یا رد کر دے ۔ اور قبولیت کے بھی در جے ہوتے ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ آج اگر کوئی خواہش پوری ہو، ارمان ہو را ہو یا آج سے کچھ عرصہ بعد پورا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر وہ بھی ہو ہے کہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ حضوراکرم نے فرمایا کہ جو کچھ بھی آپ دعائیں کر تے رہتے ہیں اس کے بدلے آخرت میں آپ کو ملتا ہے اور وہاں پر ایسا ہو گا کہ کسی شخص کو اس کی دعاؤں کے بدلے میں جود نیا میں پوری نہیں ہوئی تھیں ۔ ان کا آخرت میں اجردیا جاۓ گا تو وہ کہے گا کہ کاش د نیا میں میری کوئی مراد پوری نہ ہوئی ہوتی ۔ یہ آپ سمجھ لیں کہ جس طرح یہاں پر یہ Competition (مقابلہ)

ہے کہ ہر آدمی چاہتا ہے کہ میں الیکشن لڑوں اور ایم ۔ پی ۔اے بنوں اور چر منسٹر اور پرائم منسٹر بنوں ۔ پھر چار ، پانچ سال پورے نہیں ہوتے اور پہلے ہی کہتے ہیں کہ Kick out ۔۔۔مقدے بنتے ہیں ، اندر چلے جاتے ہیں ۔اسی طرح اگلا جو ملک اور جہان ہے، وہاں پر ہم نے ہمیشہ رہنا ہے اور وہاں پر ہمارا جو منصب یا مقام ہے وہ بھی ہمیشہ رہتا ہے۔۔۔تو اس کیلئے بھی کوشش کریں ، اس کیلئے بھی طلب
ہونی چاہیے کہ وہاں پر بھی ہمارا کوئی وقار ہومر تبہ ہو مقام میں بعض اوقات بڑا پریشان ہو جا تا ہوں ۔ جب دوست اور ساتھی دعا کیلئے کہتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ دعا کروں گا اور دعا کرتا بھی ہوں ۔ وہ ایسی بارگا ہے کہ وہاں ہونا چا ہیے ہیں ہم سارے اس بارگاہ کے سوالی ہیں ۔ یہ بھی بڑی عطا ہے کہ ہمیں اس کے دروازے پر پہنچنا نصیب ہو جا تا ہے ۔ چا ہے وہ اللہ تعالی کی ہستی یاحضور نبی کریم ﷺ کی ،دواللہ بے نیاز ہے۔ اس کی صفت یہ ہے کہ اللہ الصمد‘ ہے ۔اور ان ﷺ کا بھی مقام ہے۔۔۔۔وہ آپ کے تصور میں نہیں آ سکتا۔اب وہاں بیٹھ جاؤں اور ضد کر نے لگوں کہ یا رسول اللہﷺ یہ کام تو ہونا ہی چاہیے ۔ اور یا درکھیں ! میں آپ جی تھڑ دل بھی نہیں ہوں ۔ میرا کوئی مقام تھا ،میری کوئی منزل تھی اور وہ بھی منزل تھی کہ دنیاۓ اسلام میں اتحاد ہو نفاذ اسلام ہو، پوری دنیا میں اسلام کا غلبہ ہو اور دشمنان اسلام سر نگوں ہوں ۔افغانستان سے روسی فوجیں پلٹیں اور روس نہ صرف افغانستان کو چوڑے بلکہ وسطی ایشیاء کی اسلامی ریاستوں کو بھی چھوڑ دے اور وہاں سے بھی اسے ذلیل وخوار ہو کر نکلنا پڑے ۔اب آپ کی بلا جانے کہ وسط ایشیاء کیا ہے اور وہاں کی اسلامی ریاستیں کونسی ہیں اور ہماری تاریخ کیا ہے۔
ہر نبی علیہ السلام کواللہ تعالی نے اس ماحول کے مطابق معجزے عطا کئے ہیں ۔حضوراکرمﷺ کا سب سے بڑامعجزہ قرآن کریم ہے ۔اس لئے کہ اس دور میں عرب اپنی فصیح البیانی کے باعث باقی

ساری دنیا کو عجم کہتے تھے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ایران اور دیگر غیر عرب ی سب گونگے ہیں ۔ عجم کہتے ہی’’ گونگے ‘‘ کو ہیں ۔تو حضورﷺ پر اللہ تعالی نے جو کلام نازل فرمایا اس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ قرآن کریم تو بہت بڑی بات ہے تم اس جیسی ایک سورۃ ہی بنادو،ایک آیت ہی بنادو،تو و فصیح البیان عرب خود گو نگے رہ گئے ۔ ان کی زبان ان کا ساتھ نہ دے سکی ۔اسی طرح اولیا کرائم کوبھی بعض اوقات کسی کرامت سے سرفراز کر دیا جا تا ہے ۔ وہ کوئی عجوبہ نہیں ہوتا ، کوئی تماش نہیں ہوتا بلکہ اس شخص کی صداقت کی دلیل کیلے اللہ تعالی اس کے ہاتھ سے کوئی فعل سرزد کرا دیتے ہیں ۔ اور بعض اوقات اسے خود بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کیا ہونے والا ہے ۔ تو جو پیشن گوئیاں میں نے کتاب ” حال سف‘‘ میں کی ہیں ۔ ان میں سے ایک پیشن گوئی جو روس کے بارے میں ہے وہ ۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے پوری ہو چکی ہے ۔ وہ اس انداز سے پوری ہوئی ہے کہ ۔

وسط ایشیاء کی اسلامی ریاستیں جو 70 سال تک روس کے ماتحت انتہائی جبر وتشد د میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ ان کو جب اچا نک آزادی ملی تو وہ پریشان ہو گئے کہ کریں کیا ۔ ان کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ ہو کیا گیا ہے ۔ تو اگر کوئی اور کرامت ہوتی ہے تو میری ساری کرامتیں ایک طرف اور یہ کرامت ایک طرف ۔ اور لطف کی بات ہے کہ آپ جیسے میرے ہزاروں مریدین ہیں ۔ کتاب’’ حال سفر‘‘ بھی آپ نے پڑھی ہوئی ہے ۔ مگر صرف دوشخص ہیں جنہوں نے مجھے مبارکباد دی ۔ ایک ڈاکٹر طیب نے امریکہ سے خط لکھا اور ایک یہاں سے کسی نے کہا کہ مبارک ہو ! آپ کامیاب ہوگئے ۔آ پ لوگوں میں تو اتنی بھی Sense نہیں کہ دنیا میں کیا ہور ہا ہے اور ہم کر کیا ر ہے ہیں ۔ یہاں پر چند ساتھی بیٹھے ہوۓ ہیں جو اس سارے فعل میں جو کچھ میں کر رہا ہوں اس کے گواہ ہوتے ہیں ۔ پھر بھی میں اپنے قریبی ساتھیوں کو گلا لیتا ہوں ۔ اس سے بھی پہلے نجیب صاحب اور پروفیسر محفوط صاحب گواہی دیں گے کہ 1984 ء میں جب مجھے یہ مقام حاصل ہوا تھا تو اس وقت مسجد میں بیٹھ کر عشاء کی نماز کے بعد میں نے کچھ تصر فات کیئے تھے ۔ یہ دونوں عینی شاہد ہیں ۔تو کہنا یہ ہے کہ اگر آپ مجھ سے یہ توقع کریں کہ مجھے تو یہ بھی ہو جانا چاہیے اور وہ بھی ہو جانا چا ہیے ۔ تو بھئی ! اتنے تھڑ دلے نہ بنیں ۔ اتنی بے چینی اور بیقراری کیوں ۔ اس زندگی کو کیوں اپنے اوپر سوار کر رہے ہیں ، جس کیلئے آپ مرے جار ہے ہیں وہ تو کوئی شے نہیں ہے ۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ بھئی ! آپ میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو بھوکا سو یا ہو، اس کے گھر میں دانے نہ ہوں یا اس کے تن پر کپڑانہ ہو ۔ کسی نہ کسی رنگ میں سارے کھار ہے ہیں ۔ جہاں تک خواہشات کا تعلق ہے ۔ میں لکھ کر دے سکتا ہوں کہ آپ اس وقت تک Satisfied نہیں ہو سکتے ۔ جب تک آپ قناعت پندنہیں بنتے ۔ آپ کی ایک خواہش پوری ہوگی تو دیس اور ابھرآئیں گی ۔ آپ CSP بھی ہو جائیں ۔ تو فی الوقت کیا ہو گا کہ آپ AC بن جائیں گے ، DC بن جائیں گے یا کمشنر بن جائیں گے ، پھر کیا ہو گا ۔۔۔۔ آپ کی کمشنری بھی یہیں رہ جائے گی ، بنگلہ بھی یہیں رہ جائے گا اور سلام جو ہو تے ہیں وہ بھی یہیں رہ جائیں گے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا جاۓ گا۔ بڑے بڑے بادشاہ آۓ ۔ جب ان کر کی قبروں کو دیکھتے ہیں تو اپی مٹی بھی میسر نہ ہوئی بیچاروں کو ۔آپ کو تو اپنے اندر سچی طلب پیدا کریں اور وہ یہ کہ جب اس دنیا سے جائیں تو کم از کم حضور کی بارگاہ میں ان کی کچہری میں ، ان کے در بار میں ۔۔۔۔اگرایک دفعہ اجازت مل جاۓ ۔ میں آپ کو وہاں لے جا نا چا ہتا ہوں اور آپ کہتے ہیں

کہ یہاں ادھر جا تا ہوں ۔ ایک ساتھی ہے و داتا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے بڑی پذیرائی کی اور جب وہ واپس آنے کیلئے چلا تو وہ کہتا ہے کہ اسٹیشن تک دا تا صاحب میرے ساتھ آۓ ۔اب جس انداز میں اس نے بات کی تھی ،تو یوں محسوس ہوا کہ اس بیچارے کو سمجھ نہیں آرہی کہ ایسا کیوں ہوا ہے ۔ شاید اسے کچھ اپنے اعمال پر ناز ہے تو میں نے کہا کہ بیٹے بات یہ ہے کہ جو کچھ تم اب ہو ، وہ تم پہلے بھی تھے ۔ یوں سمجھ لو کہ میں آپ کا شیخ ہوں یہاں میرے دو بیٹے بیٹھے ہیں ۔ان کی اگر آپ عزت کرتے ہیں ۔ اٹھ کے ملتے ہیں ، گلے لگاتے ہیں یا ہاتھ کو ملتے ہیں تو کیوں؟ اس لئے کہ یہ میرے بیٹے ہیں ۔۔۔۔ان کی تکریم میری وجہ سے ہے ۔۔۔تو دا تا صاحب اگر کسی شخص کی پذیرائی کر تے ہیں تو اس لئے کہ آپ میرے روحانی بیٹے ہیں ۔ آپ کے ساتھ کوئی لال نہیں لگے ہوۓ ، آپ تو نماز بھی ٹھیک طرح سے نہیں پڑھ سکتے ۔ یہ جو آپ کو بیٹھے بٹھائے کعبہ شریف کی زیارت ہونے لگتی ہے ،انبیاء کرام کی زیارت ہونے لگتی ہے اورسب سے بڑی بات یہ کہ حضور کی بارگاہ میں بار یابی ہو جاتی ہے ۔ معمولی بات تو نہیں یہ کوئی کھیل تو نہیں ۔ سب سے بڑی کر امت اگرکسی ولی اللہ کی ہوسکتی ہے تو وہ یہی ہے ۔ باقی جتنی بھی اور کسی قسم کی بھی کرامتیں ہیں وہ اس سے کم تر ہیں ۔ جوآپ بزرگان دین کی کرامتیں سنتے رہتے ہیں

کہ یہ کر دیا وہ کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ساری کی ساری اس کے مقابلے میں ہیچ ہیں ۔
تو یہاں پر کم از کم میں پچیس ساتھی ایسے بیٹھے ہوں گے جو روزانہ حضور کی زیارت کرتے ہیں ۔ کیا یہ معمولی بات ہے ۔ پھر آپ مجھ سے کرامتیں مانگتے ہیں اورپوچھتے ہیں کہ حضرت صاحب کی کوئی کرامت ہے ۔ پچھلے دنوں ایک ساتھی حسنات شاہ کہنے لگا کہ میں آپ کے واقعات قلمبند کروں ، ہر ساتھی کی اپنی اپنی کیفیات ہوتی ہیں ۔ مشاہد ہ ہوتا ہے ۔ میں کتاب ترتیب دینا چاہتا ہوں ۔ اس نے ساتھیوں سے نوٹس لیئے اور مجھے دکھاۓ ،تو میں نے کہا یا رحسنات کیوں اس کو اکٹھا کر ر ہے ہو؟ ۔ ایسے واقعات تو ہر ساتھی کے روزانہ کے ہیں اور اتنے ہیں کہ اب ان کیلئے ان میں Novelty ( ندرت ، انو کھاپن ) رہ ہی نہیں گئی ۔ بہت ہی عام ی بات ہے ۔ تو جو’’ حال سفر‘‘ پڑ ھ کر جس میں ، میں نے چند واقعات لکھے ہیں ۔ وہ پڑھ کر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ وہ میری ان کرامتوں سے متاثر نہیں ہو گا ۔ تو اس سے لاگی بڑھ کر میں کیا کرامت دکھا سکتا ہوں ۔ اس لئے ’حال سفر‘ہی بہت ہے ۔ اگرکسی کو ہدایت ہوتی ہوئی تو یہ بہت ہے ، کافی ہے ۔

کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ آدمی کی سوچ اور انداز بدل دیتے ہیں محفوظ صاحب کو پتہ ہے کہ ہمارے جوشیخ کرم ہیں ، وہ ساتھیوں پر سارا سال محنت کرتے رہتے تھے اور پھر جب سالانہ اجتماع چالیس دلوں کا ہوتا تھا تو اس میں بڑی کڑی آزمائشوں کے بعد جو ساتھی قابل ہوتے تھے ان کو در بار اقدس ﷺ میں پیش کرتے ، بیت کرائی جاتی تھی ۔ اور کچھ ساتھیوں کی بیوقوفی کی وجہ سے ایک وقت آیا کہ حضرت اتنے بد دل ہوۓ کہ انہوں نے کہہ دیا کہ آئیندہ میں کسی ساتھی کوکوئی بھی سبق نہیں دوں گا ۔ مراقبات ثلاثہ اور حد بیت تک کرانا چھوڑ دیا ۔ واقعات کیاتھے وہ محفوظ صاحب کو پتہ ہے ، یہ پرانے ساتھی ہیں ۔انہوں نے میرے کہنے پر حضرت کی بیعت کی تھی ۔

تو مجھے بھی کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ اس سلسلے کو میں اس طریقے سے نہیں چلاؤں گا جس طریقے سے باقی بزرگان دین چلاتے رہے ہیں کہ انہوں نے خلفاء نا مزد کر دیئے ۔ پھر ان کے بعد انہوں نے سلسلہ چلانا شروع کر دیا پھران کی اولا د پھر اسی طرح سلسلہ چلتا رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اس تصوف وسلوک کی لائن کو بہت مختصر کر دیا ہے ۔ اور اس میں مجھے ڈر ہے کہ آپ اپنی افتادطبع کے تحت نہ جانے اس میں کیا کیا ترامیم کرتے رہیں، ردو بدل کر تے رہیں ۔ اب جس کی میں نے اجازت ہی نہیں دی وہ اگر آپ سارا دن بھی وردکر تے رہیں ۔ ۔۔تو آپ کو ثواب تو ملے گالیکن وہ کیفیت پیدانہیں ہو گی ۔اب میں نے آپ کوصرف اسم ذات کا ، درود ۶ شریف ،مخمسات عشر ، بسم اللہ شریف ، تیسراکلمہ اور استغفار کا اذن دیا ہے ۔ یہ آپ سب ساتھیوں کیلئے ہے چاہے وہ چھوٹا ہے یا بڑا ہے ۔ اب اگر کوئی ساتھی اس کی بجائے کسی اور ادا کی کتاب سے کوئی وظیفہ دیکھ کر کہ یار یہ بڑا اچھا ہے ۔ اور وہ اس کو بھی اپنالیتا ہے اور پھر اپنے ساتھیوں کو اس کی تلقین کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر وہ کہتا ہے کہ فلاں سورۃ تم سو دفعہ پڑھواور سودفعہ پڑھتے ہوۓ ہوسکتا ہے اس نہ کے چار گھنٹے لگ جائیں ۔۔۔۔جبکہ میں نے آپ کو بتا یا ہوا ہے کہ آپ نے چار گھنٹے درودشریف پڑھنا ہے ۔ اس طریقے سے کچھ ایسے واقعات ہوۓ ہیں ، میں ان کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ۔ میں نے جو چند ساتھیوں کو بتایا تھا کہ آپ ایک خاص لسٹ میں ہیں ۔

ان کو خود بھی پتہ ہے اس سے مرادنہیں کہ آپ میرے وصال کے بعد اپنی اپنی الگ گدی کھڑی کر لیں گے اور پھر آگے اپنی اولا دکونقل کر تے چلے جائیں گے ۔ آپ کا انتیار صرف اتنا ہے کہ اگر آپ کے شہر میں یا آپ کے گاؤں میں یا آپ کے محلے میں دو چار ساتھی ذکر کرتے ہیں ۔ تو آپ ان کو روزانہ یا ہفتے میں ایک دفعہ بٹھا کر ذکر کرا دیا کر میں ۔ گویا کہ آپ مانیٹر ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ اکٹھاذ کر کر نے میں زیاد و فائدہ ہوتا ہے ۔اس لیے آپ کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ آپ ان کو ذکر کراسکتے ہیں ۔اور لطیفہ قلب آپ ہرکسی کو بتا سکتے ہیں ۔ چا ہے وہ بیت ہو یہ نہ ہو ۔ بلکہ آپ میں سے جس کسی نے بھی میری بیعت کی ہے وہ ہرکسی کو لطیفہ ء قلب بتا سکتا ہے ۔ اب باقی لطائف کے جو مقامات ہیں ۔اس کیلئے اگر آپ کسی شخص میں دیکھتے ہیں کہ اس میں طلب اور استعداد ہے اور اس کو آپ میرے پاس’’دار الفیضان‘‘ لے آتے ہیں۔۔تو یہ اذن اس صورت میں ہوگا۔ یہ ایک غار نہی تھی اور کسی ساتھی نے مجھ سے پوچھا تھا ۔ اس لئے میں نے اس کی وضاحت کی ہے ۔ اب ان ساتھیوں میں صرف ایک حسنات شاہ ایسا ہے

جس کو میں نے ظاہری بیعت کی اجازت دی ہے ۔ وہ کیوں؟ اس لئے کہ اس کے آبا ؤ اجداد سے اس کے گھرانے میں پیر خانہ قائم ہے ۔ لوگ ان کی بیت کر تے ہیں اور ایک سلسلہ چلا ہوا ہے ۔ اب اس کے با با جی فوت ہو گئے ہیں اتفاق کی بات ہے کہ ان کے والد صاحب نے بھی آخری دم پر میری بیعت کی ۔ وہ اس کو پتہ ہے کہ کس انداز میں بیعت کی اور کیوں ۔ بستر مرگ پر کوئی چیز دیکھی کہ فورا اس کوتلقین کی کہ شاہ صاحب ( حضرت جی کو میرے پاس لے آؤ۔ میں گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے بیعت کریں ۔ ۔ ۔ یہ اس کا ، اس کے والد صاحب کا اور میرا راز ہے ۔۔۔۔ لیکن چونکہ ان کا پیر خانہ چل رہا ہے ۔ اس لئے میں نہیں چاہتا کہ اس کو محروم کر کے ان سارے لوگوں کو بھگا دوں ۔ کیونکہ ان کا جوتعلق ہے وہ تو اس کے دادا جان سے تھا صاحب نے منع کیا ہوا ہے ، تو ہوسکتا

اور پیچھے سے آ رہا ہے ۔ اب اگر یہ کہے کہ میں تو بیعت نہیں کرتا مجھے میرے حضرت جی نے منا کیا ہے وہ حضرت صاحب کے پاس آنے کی بجائے کہیں اور بھاگ جائیں۔ اس لئے اس بنا پر میں نے اس کو اجازت دی ہے کہ یہ بیعت کر سکتا ہے ۔ اور آپ میں سے کوئی شخص بیعت نہیں کر سکتا اور اس کیلئے بھی لازمی ہے کہ جب یہ صحیح طور پر گدی نشین ہو گا ۔ تو اپنے ساتھیوں کو یہاں پر میرے پاس کبھی کبھی لایا کرے گا۔ یا کم از کم میرے پاس اگر میں اس سے پہلے چلا جا تا ہوں تو یہ کہے گا کہ وہاں دارالفیضان میں میرا پیر خانہ ہے ، وہاں پر بھی کبھی کبھی حاضری دے دیا کرو۔ یہ نسبت ان کو میرے سلسلے کی دے گا۔
باقی آپ میں سے کسی شخص کو نہ بیعت کرنے کی اجازت ہے اور نہ کوئی اور انداز اختیار کر نے کی اجازت ہے ۔ اگر کوئی کرتا ہے تو وہ اپنی صوابدید پر کرتا ہے ۔ اس کا خمیازہ وہ خود بھگت لے گا ۔ آپ میں سے ہر شخص اپنا خودمحاسب ہے۔ آپ یہ تو خواہش رکھتے ہیں کہ فلاں ساتھی کو اتنا مقام ملا ہے مجھے کیوں حاصل نہیں ہوا ۔ تو بھئی ! اپنے اعمال کو خود دیکھیں ۔ بنیادی عبادت نماز کی پابندی ہے ۔ پھر لوگوں کے ساتھ معاملات اور تعلقات ہیں ، لین دین ہے ۔ لین دین کے معاملے میں بہت سے لوگ بڑے ہی نا کارہ ثابت ہوتے ہیں ۔اب ان سارے معاملات کو دیکھ کر پھر اپنے اندر ی طلب پیدا کیا کریں کہ کمال صاحب ہمیں اتنا بلبری کیوں سبق نہیں دیتے ۔ اللہ گواہ ہے کہ میری ہر ساتھی کی طرف نگاہ اور دھیان ہوتا ہے کسی کو کیا د ینا ہے۔ ایک تو میرے پاس بی معیار ہے کہ آپ میں سے کوئی بھی میرے پاس ’’ دارالفیضان‘ کتنی دفعہ آ تا ہے ۔ مہینے میں چار دفعہ آ تا ہے ، دو فعہ آتا ہے ، ایک دفعہ آ تا ہے ۔ تو جس انداز سے آ تا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس میں طلب ہے ۔

اپنا گھر بار چھوڑ کر کام کاج چھوڑ کر کرایہ خرچ کر کے میرے پاس آیا ہے تو یقینا اس میں طلب ہے ۔ تو پھر اس کے مطابق اس کو سبق ملتے ہیں ۔۔۔۔ اور اگر اہلیت کے بغیر جلدی سبق دے دیئے جائیں تو اس کیلئے کوئی مسئلہ بن جا تا ہے ،کوئی پریشانی بن جاتی ہے ۔ اور آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارا پیر بڑا کامل ہے ۔لیکن ذرا تکلیف آتی ہے۔ تو چر سب کہتے ہیں کہ ہمارے پیر صاحب اچھے ہیں کہ دعویٰ اتنا کر تے ہیں اور ہمارا اتناسا کام بھی نہیں کر سکتے ۔

اس لئے جب آپ تیزی دکھاتے ہیں تو بعض اوقات میں نظر انداز کر جا تا ہوں ۔ پھر مجھے یاد ہانی کراتے ہیں بھی کہ فلاں تاریخ مجھے سبق ملاتھا۔ اب مجھے اگلاسیق دے دیں ناں۔ بھئی ! مجھے پتہ ہوتا ہے کہ سبق دینا ہے ۔ اور کب دیتا ہے۔ اس نے سبق پکا یا ہے یا نہیں پکایا۔

درود شریف کیلئے پر تلقین کی جاتی ہے ۔ ابھی مستورات کی لسٹ میرے پاس آ گئی ہے ۔ان کا ساڑے سات کروڑ درودشریف بنا ہے ۔ کتاب’’ حال سفر‘‘ کے دیباچے میں ، میں نے حضرت شاہ ولی اللہ کا حوالہ دیتے ہوۓ ذکر کیا ہے کہ بزرگان دین اور خاص طور پر اپنے بزرگوں کے واقعات سننے سنانے کا یہ فائدہ ہو تا ہے کہ بعض اوقات کسی بچے میں طلب پیدا ہو جاتی ہے کہ ہمارے بابا جی نے یہ کیا تھا ۔۔۔ ہم بھی یہ کر یں ۔ تو میں نے اس میں لکھا تھا کہ شاید میری اولاد میں سے یا شاگردوں میں سے کوئی اولعزم ساتھی پیدا ہو جاۓ اور وہ میری روایت کو آگے چلاۓ ۔

میں اپنی اولاد سے تو ابھی مطمئن نہیں ہوں ۔ ٹھیک ہے کہ ثاقب ( حضرت جی کے بڑے بیٹے ابھی پڑھ پڑھ رہا ہے ۔ اس کے پچیسں تیسں ہزار روزانہ ہیں لیکن میں مطمیئن نہیں ہوں ۔ اس لئے کہ اگر لیاقت روزانہ ا لاکھ پڑھ سکتا ہے اور ثاقب کیوں تیسں ہزار پر کیوں قناعت کرے ۔ اس نے گدی چلانی ہے ۔ اس طرح تین ساتھی ایسے ہیں جو ماشا اللہ تقریبا تین تین کروڑ سالا نہ پڑ ھار ہے ہیں ۔ عورتوں میں سے تین بیبیاں ایسی ہیں جن میں ایک کا ڈیڑھ کروڑ ہے ، ایک کا ڈھائی کروڑ ہے اور ایک کا تین کروڑ ہے ۔

اب آپ سوچیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عورت ہو اور وہ اتنا جلدی پڑھ لے ۔ تو بھئی ! بعض اوقات ظاہری طور پر جو پریشانی اور مصیبت ہوتی ہے Disguise ( پوشیدہ طور پر میں بہت بڑا انعام بن جاتی ہے۔ وہ دو پیاں ایسی ہیں جوکسی سخت قسم کی بیاری کا شکار ہیں ۔ ان سے گھر کا کوئی کام نہیں ہوتا ۔ اب وہ بیٹھی ہیں اور تسبیح رول رہی ہیں ۔ یہ ان پر اللہ تعالی کا احسان ہے کہ ان میں یہ طلب پیدا ہوگی ، یہ شوق پیدا ہو گیا کہ سحری کو چار بجے اٹھنا ہے اور رات کو گیارہ بجے تک مسلسل تسبیچ پھیر تے رہنا ہے ۔ کسی نے ان کو ڈ سٹرب نہیں کر نا ہے ۔اب ٹھیک ہے کہ ان کو مہلت تو مل گئی ۔ لیکن یہ جوشوق پیدا ہوا یہ بڑی بات ہے ۔ یہ عزم اور ہمت کی بہت اونچی مثال ہے ۔ اسی طرح چند ساتھی ہیں ۔۔۔۔ جومیری روایت کوا پنار ہے ہیں ۔

اور آپ بھی اگر زیادہ میں اپنی اولاد سے تو ابھی مطمئن نہیں ہوں ۔ ٹھیک ہے کہ ثاقب ( حضرت جی کے بڑے بیٹے ابھی پڑھ پڑھ رہا ہے ۔ اس کے پچیسں تیسں ہزار روزانہ ہیں لیکن میں مطمیئن نہیں ہوں ۔ اس لئے کہ اگر لیاقت روزانہ ا لاکھ پڑھ سکتا ہے اور ثاقب کیوں تیسں ہزار پر کیوں قناعت کرے ۔ اس نے گدی چلانی ہے ۔ اس طرح تین ساتھی ایسے ہیں جو ماشا اللہ تقریبا تین تین کروڑ سالا نہ پڑ ھار ہے ہیں ۔ عورتوں میں سے تین بیبیاں ایسی ہیں جن میں ایک کا ڈیڑھ کروڑ ہے ، ایک کا ڈھائی کروڑ ہے اور ایک کا تین کروڑ ہے ۔

اب آپ سوچیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عورت ہو اور وہ اتنا جلدی پڑھ لے ۔ تو بھئی ! بعض اوقات ظاہری طور پر جو پریشانی اور مصیبت ہوتی ہے Disguise ( پوشیدہ طور پر میں بہت بڑا انعام بن جاتی ہے۔ وہ دو پیاں ایسی ہیں جوکسی سخت قسم کی بیاری کا شکار ہیں ۔ ان سے گھر کا کوئی کام نہیں ہوتا ۔ اب وہ بیٹھی ہیں اور تسبیح رول رہی ہیں ۔ یہ ان پر اللہ تعالی کا احسان ہے کہ ان میں یہ طلب پیدا ہوگی ، یہ شوق پیدا ہو گیا کہ سحری کو چار بجے اٹھنا ہے اور رات کو گیارہ بجے تک مسلسل تسبیچ پھیر تے رہنا ہے ۔ کسی نے ان کو ڈ سٹرب نہیں کر نا ہے ۔اب ٹھیک ہے کہ ان کو مہلت تو مل گئی ۔ لیکن یہ جوشوق پیدا ہوا یہ بڑی بات ہے ۔ یہ عزم اور ہمت کی بہت اونچی مثال ہے ۔ اسی طرح چند ساتھی ہیں ۔۔۔۔ جومیری روایت کوا پنار ہے ہیں ۔ اور آپ بھی اگر زیادہ  بھئی ! کتاب میں عرش عظیم سے اوپر کے جو مقامات ہیں ، ان میں ، میں نے پچھے دائرے گنواۓ ہیں ۔

اس میں دائروتوکل ، دائروصبر اور تسلیم ورضا ہے۔۔۔۔ تو وہ ایسے ہی نہیں لکھ دیئے گئے ۔ بلکہ ان کی تاثیر یہ ہونا چا ہیے کہ واقعی آپ میں صبر اور توکل ہونا چاہیے ۔ کوشش کریں اور پھر نتائج اللہ تعالی پر چھوڑ دیں ۔ جب ہم تجویز پیش کرنے لگتےہیں کہ یہ ہونا چا ہے مثلا اگرکوئی کہتا ہے کہ میں نے بی-اے کر لیا ہے اب مجھے ضرور Seventeen Scale گریڈ سترہ کا منصب ملنا چاہیے ۔ تو اس کو کہتے ہیں’’ اصول تجویز‘ اس کے مقابلے میں ایک اصول تفویض‘‘ ہے ۔

اس کا مطلب ہے ، اپنے آپ کوسپر دکر دینا ۔ کہ اے اللہ ! میں نے محنت کی ہے اور بی ۔اے یا ایم ۔اے کر لیا ہے ، اب تو ہی میرا کارساز ہے ۔۔۔اس لئے دنیاوی معاملات میں بے صبری کا مظاہرہ نہ کیا کر میں صبر اور توکل حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ دنیاوی پر یشانیوں کیلئے آپ خود بھی دعا کرتے ہیں اور مجھے بھی کہتے ہیں ۔ اس لئے میرے پاس ایک ہی نسخہ ہے وہ یہ کہ بتا درود ہوگیا شریف پڑھیں گے انشاء اللہ اتنا ہی کشائش اور آسانیاں پیدا ہوں گی ۔ اس میں تاثیر یہ ہے کہ اگر آپ اسے خلوص نیت سے پڑھیں گے تو انشا اللہ آپ کی آخرت بھی سنورے گی اور یہ دنیا بھی بنے گی ۔ اس طرح آپ دونوں دنیاؤں میں کا میاب ہوں گے ۔