سید عبدالخالق شاہ

سیدحسنات احمد کمال

پیرسید عبد الخالق شاہ صاحب ہمارے مورث اعلی میں خاندانی شجرے کے تسلسل میں وہ ہم سے گیارہ نسلیں پہلے ہوگزرے ہیں ، آپ نجیب طرفین حسنی حسینی سید تھے تاریخ بتاتی ہے کہ آپ کے اجداد شہادت امام حسین کے بعد حجاز مقدس سے حضرت امام جعفر صدق کے بیٹے حضرت علی کے زمانے میں گرویز چلے گئے تھے پیرسید عبد الخالق شاہ صاحب کی تاریخ ولادت کا پتہ نہ چل سکا وہ 1637 ء میں روہتاس آۓ آپ کے والد گرامی کا نام نامی سید شمس الدین ہے ۔ گردیز میں حضرت علی کی وفات کے بعد ” انکے ایک فرزند گرویز سے عراق تشریف لے گئے ۔ وہ سید محمد تھے انکی قبر مبارک عراق میں ہی ہے جبکہ ان کے ایک صاحبزادے سید مند حسن مصر چلے گئےتھے ۔  وہیں پر رحلت ہوئی اور تد فین بھی ، انکی دوسری نسل مصر سے خوارزم ہجرت کر گئی تھی سید محمد خوارزمی و روحانیت کی دنیا کا ممتاز نام آپ کا وصال خوارزم ہی میں ہوا ، سید محمد خوارزمی کے فرزند سید علی حق ایک مستانہ تھے جنکا چرچہ چہارم سوتھا ، سید علی حق مستانہ ہمہ وقت یاد الہی میں مستغرق رہا کرتے تھے۔

آپ کا مزار مبارک بھی خوارزم میں ہے، پھر ان کے فرزند سید عبداللہ نے خوارزم سے ملتان ہجرت کی ملتان کی اپنی ایک تاریخ ہے غیات الدین تغلق بھی یہیں پیدا ہوا اور اولیاء اللہ کی بستی بھی ملتان قرار پائی ملتان کی قدامت کے تو ہم پہلے ہی قائل ہو چکے ہیں اور معلوم ہو چکا کہ علم تاریخ نے ملتان کی آغوش میں آنکھ کھولی تاریخ کے ورق الٹاتے جائیں تو واضح ہوتا جائیگا کہ اس شہر کی دولا کھ 16 ہزار پانچ سوسال قبل فرزندان آدم کی جاۓ سکونت کے آثارمل جاتے ہیں ملتان کا پرانا نام میسان تھا۔

تاریخ کا وہ زمانہ استیلا کا تھا جو آٹھ ہزار سال قبل مسیح کا تھا بہر طور میرا موضوع چونکہ ملتان نہیں چک عبدالخالق اپنے اجداد اور زندگی کے صحرا میں ہمارے بزرگوں کی مسافرت اور دین اسلام کے حوالے سے تگ ودوسفر اور ہجرت ہے لہذا میں عرض کروں کہ ملتان سے ہمارے قبیلے کی افراد نے امیر تیمور سلطان کے مظالم سے نکل کر بچے کھچے سادات تلنیہ جاپہنچے جو ملتان کی ایک تحصیل خانیوال میں ہے پھر گجرات کے لئے سفر باندھا گجرات میں سید سلمان سید میراں اور سید معین الدین جن کے نام پر گجرات میں ایک بستی محمدی پور مدینہ اور سید معین الدین چک آباد ہیں سیدعبد الخالق شاہ صاحب کے والد گرامی سید شمس الدین شاہ صاحب کا مزار بھی گجرات کی اسی بستی سادات میں ہے۔
سید عبد الخالق شاہ شیر شاہ سوری کے عہد میں روہتاس میں آکر آباد ہوۓ پھر وہاں سے یہاں اس بستی میں آ گئے انکا حلقہ ارادت میں بڑھتا گیا ہیں یوں ویرانہ آباد ہوتا گیا لوگ آملتے رہے اور کارواں بنتا گیا پھر بستے بستے بستی چک عبدالخالق کے نام مبارک سے مشہور ہوگئی آپ جب یہاں آئے تو گردوپیش کےضعات کے لوگ آپ کی طرف کھنچے چلے آۓ۔

Syed Abdul Khaliq Shah

مغل بادشاہ ہمایوں ایران میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہا تھا اور روہتاس میں شیر شاہ سوری قلعہ تعمیر کرارہاتھا ایک دن وہ بابا جی سید عبد الخالق کے قریب سے گزرا تو قرآن کی تلاوت کر رہا تھا۔ بابا جی نے قرآن کے الفاظ ایک جری بادشاہ کے منہ سے سنے خوش تو ہوۓ مگر ایک کا تلفظ غلط ہونے کی وجہ سے شہر شاہ سوری کوٹوک دیا یادشاہ نے باباجی سرکار کی بات پر براتو نہ منایا مگر وہ اس بات پر قائم رہا کہ وہ جو پڑھ ر ہا ہے وہی سہی تلفظ ہے۔

اس وقع پر عبد الفاق شاہ صاحب نے کہا کہ اگر آپ کی بات صحیح ہے تو آنکھوں کو بند کرو غلط اور سہی کا پتا چال جائیکا بادشاہ نے فقیر کی بات کی تعمیل کرتے ہوے آنکھیں بند کیں تو اسے لوح محفوظ پر وہی لفظ پورے اعراب اور شیخ تلفظ کے ساتھ لکھا دکھائی دیا شیر شاہ سوری نے انکھیں کھولیں بابا جی سے معافی کا خواستگار ہوا ایک جا گیر دے کر چک عبد اتاق نام کی بستی کے قیام میں ساتھ دیا اور اپنی حکومت میں قاضی القضاۃ کے منصف پر بٹھادی میرے والد صاحب جن کا وصال جنوری 1987 میں ہوا تھا ان کے خواب میں بابا جی سید عبد الخالق نے خواب میں بتایا کہ ان کے مزار کے گرد جند شہزادیاں مدفون ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ بابا جی عبد الخالق شاہ صاحب کے میں علاقے میں اس قدر الاحترام و تکریم تھی اور انکی کرامات بھی لوگ گاہے گاہے دیکھتے ر ہتے ہیں لہذاشاہی خاندان کے لوگ ان کے احاطے میں دفن ہونا بھی بخش کا سبب جانا کرتے تھے آپ کے آٹھ بیٹے تھے ایک کا نام میر با شمیر تھا جنہیں تصوف کے لوگ چاند ولی کہا کرتے تھے۔

اس چاند ولی کو عالمی شہرت ملی شیر شاہ سوری نے اپنے قلعہ کے ایک بڑے دروازے کا نام چپاند ولی رکھا ہے ، چا ند ولی ابھی چھوٹے ہی تھے کہ انہوں نے کوئی کرامت دکھائی تو بابا جی عبد الخالق شاہ صاحب نے کہا کہ بیٹا ایک نیام میں دوتلواریں نہیں آسکتیں ایک جنگل میں دوشیر نہیں رہ سکتے لہذا جاؤ تمہارافیش قلعہ روہتاس میں ہے ان دنوں چونکہ بابا جی چھوٹے تھے لہذارو ہتاس میں انہیں ایک

دھوبی کے گھر رہنے کو جگہ مل گئی وہ دھوبی کی بیوی کو ماں سمجھتے تھے ایک دن سی بات پر جھگڑ اہوا اور دھو بی نے اپنی بیوی کو مارا صبح جب چاندولی کو پتہ چلا تو انہوں نے دھوبی کو اپنی کمر سے قمیض اٹھا کر دکھائی جس پر زخموں کے نشان تھے دھولی نے پو چھا یہ کیا ہوا چاند ولی نے کہا کہ آپ نے رات کو مارا تھا دھو بی بولا کہ میں نے تو اپنی بیوی کو ماراتھا چاند ولی نے کہا کہ یہ کیسے ممکن تھا کہ بیٹے کی موجودگی میں ماں کو مار پڑے میں نے آپ کے غصے کے سامنے خودکوکھڑا کر دیا تھا جا کر دیکھیں میری ماں کوکچھ بھی نہیں ہوا جس پر دھوبی نے چاند ولی سے معافی مانگ لی ۔

روہتاس قلع کی تعمیر کے دوران اس قد رلوگ کام کرتے تھے کہ قریب قریب ایک من ہینگ کا روزانہ تڑکا لگا کر تا تھا اس عرصے میں چاند ولی نے کام کے دوران سارے عملے کو پانی پلانے کی ذمہ داری قبول کی جب قلعہ تعمیر ہو گیا تمام لوگوں کو اجرت دی گئی تو چاند ولی نے مزدوری لینے سے انکار کر دیا وجہ پوچھی گئی تو چاند ولی نے شیر شاہ سوری سے کہا کہ میں نے اللہ سے کار و بار کیا ہے خلق خدا کو پانی پلایا ہے اسی سے اجرت بھی لونگا بادشاہ شیر شاہ چاندولی کے اس جواب سے اس قد رمتاثر ہوا کہ روہتاس قلعہ میں ایک درواز و چاند ولی کے نام پر رکھ دیا جو آج بھی اپنے دور کی یاد تازہ کر رہا ہے بابا عبد الخالق کی بے تحاشہ کرامتیں ہیں

لیکن آپ کی نگاہ کیمیا کا کمال تھا کہ آپ کی اولاد میں صاحب کشف اور حافظ قر آن اولیا کرام کی کثیر تعدادموجود ہے، آپ کے خاندان کے صاحب کرامت افراد کی تفصیل میں جاؤں تو بات کئی کتابوں اور مہینوں برسوں تک چلی جائیے گی ۔ سید عبد الخالق سیدنا ابو بکر صدیق خلیفہ اول کے روحانی سلسلہ نقشبند یہ میں بیعت تھےایک صوفی منش درویش فکرشخص نے بتایا کہ اس کوروحانی طور سے با باسید عبدالخالق شاہ صاحب نے بتایا کہ انکا سلسلہ نقشبند ی اور مسلک حنفیہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کی اولاد اسی راستے پر چل رہی ہے اور اکثرکو بابا جی سرکا رسیدعبدالق شاہ اپنے عقیدے کے لوگوں کو خلیفہ اول ابو بکر صد یق کی زیارت کراتے رہے ہیں مجھے بھی ابو بکر صد یق کی زیارت ہو چکی ہے آج بھی چک عبد الخالق میں بابا جی کی اولا وسلسلہ نقشبند یہ میں فیض جاری رکھے ہوۓ ہیں یک عبدالخالق کی بڑی آبادی سلسلہ نقشبند یہ میں بیعت ہے، میرے مرشد کریم پروفیسر باغ حسین کمال بھی اسی سلما نقشبندیہ اویسیہ کے فیض سے مستفید تھے۔

میری بیعت کے موقع پر پروفیسر باغ حسین کمال جنہیں کشف القبور بھی تھا انہوں نے اس روز جب بابا جی سے کہا تھا کہ عبد الخالق شاہ صاحب آج میں نے آپ کے ایک خاندان کے نو جوان کو بیت کیا ہے تو بابا جی سرکار نے اسی وقت اللہ تعالی سے درخواست کی کہ یا اللہ میری باقی اوا کوبھی پروفیسر صاحب سے بیت کی توفیق عطا فرما ، بابا جی کی دعا قبول ہوئی اور انہی دنوں 1986 ء میں 200 کے قریب افراد نے بابا جی کی بیت کی میں نے جب اپنے بابا جی پیر سید عبد الخالق شاد صاحب کو پروفیسر صاحب سے بیت ہونے کی بابت جب نا یا تھا تو دوبہت خوش ہوۓ تھے خواب میں انہوں نے مجھے سینے سے لگا یا د لاسے دیے مبارک باد دی میرے بعد میرے گاؤں کے ایک کونسلراطیف شاہ صاحب جو بابا عبد الخالق صاحب سے بے انتہا عقیدت رکھتے ہیں انہوں نے جب بابا جی سے کسی سے بیت ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تو بابا جی نے پرفیسر باغ حسین کمال کی تصویر دکھاتے ہوۓ ان سے بیعت ہونے کی تا کید کی تھی لطیف شاہ صاحب چونکہ پنوال سے واقف نہ تھے البتہ میرا اس آستانے سے بیت ہونے کا نہیں پتہ تھا اس لئے وہ میرے پاس آۓ انہیں میں اپنے مرشد باغ حسین کمال صاحب کے پاس لے گیا۔

وہاں لطیف شاہ صاحب نے جب پروفیسر باغ حسین صاحب کو دیکھا تو حیران رہ گئے کیونکہ یہ وہی شخصیت تھے جن کی تصویر عبد الخالق شاہ صاحب نے دکھائی تھی ۔ ہم آج کروڑ وں درود پاک بابا جی عبدالخالق صاحب کو ہدیہ کر تے رہتے ہیں ۔ بابا جی کے مزار سے ملحقہ مسجد کی جب دوبارہ تعمیر شروع ہوئی تو اس کا سنگ بنیاد مجھ سے رکھوایا گیا وہ لوگ بابا عبد الخالق اور باغ حسین کمال کے روحانی تعلق سے آگاہ تھے میں چونکہ دونوں کے درمیان رابطہ کار تھا اس لئے مسجد کی بنیاد کی سعادت میرے حصے میں آئی ۔

آپ کے مزار بابا جی عبدالخالق پر موجود کنویں کے پانی سے لنگر کا سوہا املاکر اگر کوئی غسل کرے تو اس کی پرانی سے پرانی خارش ختم ہو جاتی ہے آپ کی اولاد میں سے سید ضمیر جعفری نے ادبی دنیا میں نام پایا ہمارے دارحسنات پر دنیا بھر سے اربوں کھربوں درود پاک جمع ہورہا ہے خاندانی تقسیم میں سیدعبد الخالق شاہ صاحب کی جو قیام گاہ جس سید گھرانے کے حصے میں آئی وہ بتاتے ہیں کہ عبدالخالق شاہ جس کمرے میں قیام پذیر تھے وہاں سے ہروقت خوشبو آتی رہتی ہے۔ بابا جی کو وصال فرماۓ 500 سال ہو گئے ہیں مگر ان کے دربارپراور ماحقہ ان کی مسجد میں آج بھی ذکر کا ماہانہ سلسلہ جاری ہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بابا جی کی کرامت اور برکت کے طفیل ان کے بتاۓ ہوۓ سلسلے پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔اور ہمیں مسلکی اورفروعی گروہ بندیوں سے بچاۓ کیونکہ بابا حضرت امام حسین اور امام حسن انتہای پیار کرتے تھے جس قدر وہ ابوبکر صدیق اور دیگرخلفاء سے کرتے تھے۔

Syed Abdul Khaliq Shah